پیپلز پارٹی کا نام جب لیا جاۓ تو دو طرح کی راۓ سامنے آتی ہے مزاحمت جمہوریت اور قربانیوں کی تصویر اور دوسری طرف بدانتظامی کرپشن اقربا پروری کا چہرہ اس میں اصل پیپلز پارٹی کیا ہے اس کا جائزہ لیتے ہیں
ذوالفقار علی بھٹو ہمیشہ سے ایک ایسے انسان تھے جو کہیں نہ کہیں ہمیشہ سے کچھ کرنے کی جستجو میں رہتے ایک ایسا انسان جو کچھ بڑا کرنا چاہتا تھا ایوب خان کی حکومت سے استعفیٰ کے بعد انہیں بہت سی جماعتوں میں شمولیت کی آفرز ہوئیں لیکن بھٹو کے زہن میں کچھ اور ہی تھا
بھٹو ذہین تھے وہ دیکھ رہے تھے کہ ایوب کا اقتدار اب آخری دم پر ہے مشرقی پاکستان میں مجیب اور مولانا بھاشانی حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کررہے ہیں لیکن مغربی پاکستان میں سیاست روایتی ڈگر پر ہے ایسے میں پہلے سے موجود جماعتوں میں شمولیت کے بجاۓ بھٹو نے اپنی جماعت بنائی یہ زمانہ وہ تھا جب بائیس خاندانوں میں دولت کے ارتکاز نے عوام کے دلوں میں غم وغصہ پیدا کررکھا تھا بھٹو نے اس غصہ کو اپنی سیاست میں استعمال کرنے کی غرض سے سوشلزم پر اپنی جماعت کی بنیاد رکھی ایسے لوگ جن کا تعلق بائیں بازو سے تھا بھٹو کے گرد جمع ہوۓ اس میں دانشور صحافی استاد کسان غرض معاشرے کے تمام طبقات موجود تھے
پیپلز پارٹی کی ابتدا میں ایک طرف شیخ رشید جیسا سوشلسٹ تو دوسری طرف جتوئی جیسا جاگیردار بھی تھا بھٹو عوام کی نبض پڑھنا جانتے تھے وہ وفاق کی ایسی علامت کے طور پر ابھرے جو اختیارات مرتکز کرنے کے بجاۓ صوبائی خودمختاری کی حامی ہے یہاں یہ بھی قابل ذکر ہوگا کہ بھٹو کی سیاسی پذیرائی پنجاب میں تھی اس لئے بھارت دشمنی ان کا بیانیہ بنا
پیپلز پارٹی کے قیام کے صرف تین سال بعد الیکشن ہوگئے ان تین سالوں میں بھٹو کو مشرقی پاکستان میں اپنے قدم جمانے کا موقع نہ ملا مشرقی پاکستان سے پیپلز پارٹی نے کسی امیدوار کو نامزد نہ کیا
ستر میں پہلی بار ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر الیکشن ہوۓ یہاں وضاحت ضروری ہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ غلط تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ الیکشن بھٹو کی تحریک پر ہوۓ فوجی حکومت کے خلاف مہم میں پیپلز پارٹی کا کوئی حصہ نہیں تھا
عوام ایوب دور میں ہوئی غیر منصفانہ ترقی سے نالاں تھے بھٹو کے سوشلسٹ پروگرام اور روٹی کپڑا مکان کے نعرے میں انہیں کشش نظر آئی اور معاشرے کے تمام طبقات نے پیپلز پارٹی کا خیر مقدم کیا سندھ سے تعلق ہونے کے باوجود پنجاب بھٹو کا پاور بیس بنا پیپلز پارٹی مغربی پاکستان میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری

پاکستان کا نظام پچھلے پچیس سال سے ایک سلطنت کی طرح چلایا جا رہا تھا ملک کی خالق مسلم لیگ کا وعدہ صوبائی خود مختاری کا تھا لیکن آزادی کے بعد اسے خود مسلم لیگ بھلا چکی تھی اور طاقت کا مرکز پہلے کراچی اور پھر اسلام آباد بن گیا تھا اسی کشمکش میں ملک ٹوٹ گیا
دوسرا اہم مسلئہ آئین سازی کا تھا پہلا آئین بننے میں نو سال لگ گئے لیکن یہ آئین بمشکل دو سال ہی گزار سکا تھا
بیس دسمبر 1971 کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے بھٹو نے عنان حکومت سنبھالی تو ان کے سامنے ملک کی تعمیر نو کے ساتھ دستور سازی بھی کرنا تھی
پیپلز پارٹی نے اپنے پہلے منشور میں طاقت کا سر چشمہ عوام کو قرار دیا تھا ایوب دور میں سوشلسٹ انقلاب سے ایک عام آدمی رومانس محسوس کرتا تھا
پیپلز پارٹی 1973 کے آئین کی خالق جماعت ہے پہلی بار ایک متفقہ آئین بنایا گیا آئین میں پارلیمانی نظام حکومت رکھا گیا جس میں تمام تر اختیارات وزیر اعظم کے تھے صوبائی خودمختاری اور آئین شکنی کی سزا رکھی گئی صوبوں میں مالی وسائل کی تقسیم کا منظم فارمولہ وضع کیا گیا خواتین کو نمائندگی دی گئی وفاقی اکائیوں میں برابری کی خاطر سینیٹ قائم کیا گیا
سیاسی محاذ پر پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آنے کے بعد سے کوئی اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا پڑا پارٹی کی پہلی اپوزیشن خود اس کے اندر سے ہوئی جاگیرداروں کی حمایت کے سبب سوشلسٹ ذہن رکھنے والوں کو محسوس ہونے لگا کہ بھٹو نے انہیں اقتدار کے حصول کے لئے استعمال کیا ہے
موجودہ پاکستان کا سیاسی کلچر آزادی سے پہلے سے ہی باقی کے برصغیر کے مقابلے میں مختلف رہا ہے یہاں کی سیاست پروٹیکشن ازم پر چلتی ہے کہ اپنے لوگوں کو آپ کتنا محفوظ رکھ سکتے ہیں اس وجہ جاگیردار سردار اس طرف بھاگتے ہیں جہاں سے طاقت کا دھارا بہتا ہو پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد جوق در جوق جاگیردار اس میں شامل ہونا شروع ہوۓ اور یہ جماعت اب زمین داروں کی جماعت بنتی چلی گئی
جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والوں نے دیکھا کہ پیپلز پارٹی چن چن کر اپنے مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے جن میں سیاست دان صحافی شامل تھے
اپنے سیاسی مخالفین کو قتل کروایا گیا بلوچستان میں سیاسی مخالفین پر فوجی آپریشن کیا گیا پارٹی کے اندر تنقید کرنے والوں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا پیپلز پارٹی بھٹو تھے اور بھٹو پیپلز پارٹی پاکستان میں جمہوریت قائم کرنے کی دعویدار جماعت اپنے لیڈر میں ایسے مدغم ہوئی کہ دونوں کو الگ کرنا ممکن نہیں رہا
پیپلز پارٹی صوبوں کو ان کے ثقافتی ورثے زبان اور تہذیب کے ساتھ وفاق کا حامی بنانے کی خواہشمند تھی سندھ میں ایسے عناصر جو قوم پرست تھے لیکن علیحدگی پسند نہیں وہ پیپلز پارٹی سے منسلک ہوۓ
پاکستان ایک کثرالنسلی ملک ہے اسلام اور پاکستان کے نام پر مختلف ثقافتوں کوایک بنانے کی کوشش ہمیشہ سے کی جاتی رہی ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کی اکثریت صوبہ سندھ میں آباد ہوئی جس سے سندھ میں مقامی آبادی کو اپنی بقا کے خطرات لاحق ہوۓ بھٹو سندھی تھے انہوں نے سندھ میں لسانی بل متعارف کروایا جس میں سندھ میں ملازمتوں کی تقسیم کو شہری اور دیہی سندھ کی بنیاد پر بانٹا گیا یہ بل سندھ اسمبلی میں سندھی اور غیر سندھی کی بنیاد پر پاس ہوا اس بل سے سندھ میں لسانی سیاست کی بنیاد پڑی اور مہاجرین نے اسے اپنے لئے خطرہ سمجھا
لسانی بل کا مقصد سندھ میں ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنا اور مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل ہونے کے خطرے سے بچانا تھا لیکن اسے اردو بولنے والوں اور اس سے بھی بڑھ کر اردو زبان کے لئے خطرہ سمجھا گیا یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بل سے زیادہ وزیر اعلیٰ سندھ ممتاز بھٹو کا عقابی رویہ اردو کے لئے خطرہ بنا سانگھڑ میں تقریر کرتے ہوۓ ممتاز بھٹو نے تقریر کے دوران کہا کہ سندھ میں رہنا ہے تو سندھی بولنا سیکھو مظاہروں کے بعد بھٹو نے پہلے تو رسول بخش تالپور گورنر سندھ کو بل پر دستخط کرنے سے روک دیا اس کے بعد ممتاز بھٹو کی جگہ غلام مصطفیٰ جتوئی کو وزیر اعلی اور بیگم رعنا لیاقت کو گورنر سندھ بنایا جس سے لسانی حرارت میں کمی آئی
اپنے اقتدار کے ابتدائی چھ سالوں میں پیپلز پارٹی نے معاشی اصلاحات کیں نیشنلائزیشن کے ساتھ پہلی بار پاکستانیوں کو ملک سے باہر روزگار حاصل کرنے کے لئے بھیجا جانے لگا جس سے عوامی خوشحالی آئی اور زرمبادلہ بڑھنے لگا
اپنے سوشلسٹ پروگرام کے تحت بھٹو نے اسکول صنعت بینک قومیا لیا جس سے انکی مقبولیت میں اضافہ ہوا لیکن ایک دوسرے زاوئے سے دیکھیں کہ پاکستان صنعتی ترقی میں بہت تیزی سے ترقی کررہا تھا ساتھ ہی صنعت کار دائیں بازو کی جماعتوں کے فنانسر بھی تھے اس اقدام سے دائیں بازو کی جماعتوں کو مالی نقصان ہوا اور صنعتی ترقی بھی رک گئی پیپلز پارٹی کے زیادہ تر فنانسر جاگیردار تھے جنہیں بھٹو کی نیشنلائزیشن سے کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ وہ خود جاگیردار کے پسندیدہ بن گئے سوشلسٹ بھی عمومی طور پر سرمایہ داروں کے مخالف تھے جاگیر برداری کے خلاف سوشلسٹ خاموش تھے مل ورکرز تو سوشلسٹ تھے لیکن کسان تحریکوں میں سوشلسٹ کردار اتنا اثر انگیز نہیں تھا
پیپلز پارٹی اپنے قیام میں ایک ایسی جماعت کے طور پر ابھری جو عوام کے حق حاکمیت اور جمہوری اقدار پر یقین رکھتی تھی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اپنے سیاسی مخالفین اور میڈیا سے انتقامی کارروائیوں میں آمریت کو بھی پیچھے چھوڑ گئی
بھٹو جب برسر اقتدار آۓ تو ملک میں ان کی کوئی مخالفت نہیں تھی یا کم از کم۔مخالفت تھی فوج ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی بھٹو نے فوج کو ایک نئی زندگی دی ان کا مورال بلند کیا لیکن وہ افواج پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے اور اسے ایک قومی فوج میں بدلنے میں ناکام رہےاگرچہ ایف ایس ایف بنانے کے پیچھے فوج کے متوازی ادارہ بنانا مقصود تھا لیکن وقت آنے پر یہ فورس خود بھٹو کے مخالف استعمال ہوئی
اپنے دور اقتدار میں پیپلز پارٹی نے اپنی غلطیوں کے باوجود مقبولیت حاصل کی پارٹی اپنے بنیادی نظریات سے انحراف کے بعد بھی عوام میں جڑیں پکڑ چکی تھی اور اس لئے بھٹو نے ایک سال قبل ہی الیکشن کا اعلان کردیا الیکشن ہوۓ تو اپوزیشن نے دھاندلی کا الزام لگایا اور بدترین احتجاج شروع ہوا کراچی حیدرآباد لاہور میں مارشل لاء نافذ کرنا پڑا حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات ہوۓ مذاکرات کی مبینہ کامیابی سے پہلے ہی جنرل ضیا کے مارشل لا لگا دیا اور بھٹو معزول کردئیے گئے
پیپلز پارٹی نے اپنے پہلے دور میں معاشرے کو نچلے طبقات کو اوپر اٹھایا لیکن اس کوشش اور بھٹو کی خود پسندی سے وہ اپنے نظریاتی راستے سے ہٹتے چلے گئے فوج پر سویلین کنٹرول کا یقینی موقع ضائع کیا گیا بھٹو اپنی اپوزیشن کو کچلنے میں اتنا مصروف ہوۓ کہ ضئیا کے مارشل لا پر اپوزیشن نے اسے ویلکم کہا بلکہ خود دعوت دی پیپلز پارٹی متفقہ آئین کی خالق رہی اور ساتھ ہی وہ ملک میں جمہوری فضا قائم رکھنے میں ناکام رہی جاگیرداری نظام پر زمینوں کی حد بندی کوئی موثر کردار ادا نہیں کرسکی جیسا کہ صنعتوں کو قومیانے میں ہوا
پیپلز پارٹی اپنی سرشت میں ایک لبرل جماعت تھی جو اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتی ہے لیکن اسلامی نظریاتی کونسل اور دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے ریاست میں مذہب کا اثر و رسوخ بڑھانے کا سہرا بھی پیپلز پارٹی کے سر ہے
امریکی اثر و رسوخ کے باعث عام آدمی امریکہ کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا تھا یہ ہی وجہ رہی کہ لیفٹ کے دانشورا پیپلز پارٹی کے گرد جمع ہونے اور سوشلزم کے نعرے کو کیش کیابھٹو کے قریبی ساتھ مبشر حسن خرشید حسن میر شیخ رشید رسول بخش تالپور جے اے رحیم سب سوشلسٹ تھے
مارشل لاء کے لگتے ہی پیپلز پارٹی کو سب سے پہلے وہ لوگ چھوڑ گئے جن کا تعلق مراعات یافتہ طبقے سے تھا عام غریب مڈل کلاس کارکن جنہیں ایک وقت میں خود پیپلز پارٹی بے وقعت بنا چکی تھی اپنے قائد کے حق میں قربانیاں دینے نکل آۓ پاکستان میں پہلی بار جمہوریت کے لئے جدوجہد جاری تھی اور عام کارکن کوڑے کھا رہے تھے دوسری طرف دائیں بازو کی سیاست کو ضیا کی صورت میں ایک مربی مل گیا ضئیا دور میں پیپلز پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوئی کئی سرکردہ رہنما پیپلز پارٹی چھوڑ کر۔ ضئیاکے ساتھ مل گئے
بنظیر نے قیادت سنبھالی حالات مشکل تھے اور بینظیر بھٹو ناتجربہ کار اور پارٹی انکلز میں گھری ہوئی تھیں حالات یہ تھے کہ جس کی بات نہ مانی جاۓ وہ ناراض ہورہا تھا
پیپلز پارٹی نے اپنی حکمت عملی میں اس دوران کئی تبدیلیاں کیں امریکہ کی حمایت حاصل کی خود کو ایک جمہوریت پسند جماعت کے طور پر پیش کیا اور ورکنگ کلاس سے اپنا رشتہ دوبارہ جوڑا لیکن اس بار سوشلسٹ عناصر کمزور ہوتے چلے گئے پیپلز پارٹی نے خود کو ایسی جماعت کے طور پر پیش کیا جو جمہوریت انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی پر پر یقین رکھتی ہے اور خود کو الذوالفقار کی مسلح جدوجہد سے الگ رکھا
ایم آرڈی میں پیپلز پارٹی نے اپنا روایتی طریقہ بدلتے ہوے مخالفین سے ہاتھ ملایا اس تحریک کا سب سے زیادہ زور سندھ میں رہا اور شائد پیپلز پارٹی کے سندھ بیسڈ پارٹی بننے کا آغاز بھی
ضیئا دور کی سختیوں قوم پرست جماعتوں کے ظہور نے سندھ کی حد تک پیپلز پارٹی میں ایک عقابی طبقہ پیدا کیا جس کے لئے سندھ سب سے پہلے تھا اور یہ طبقہ آہستہ آہستہ پیپلز پارٹی پر حاوی ہوتا گیا اس طبقے کو ابھرنے میں انکی قربانیوں کے باعث مدد ملی یہ ہارڈ لائنر ایم آر ڈی کی تحریک کی پیداوار تھے
پیپلز پارٹی نے 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لینے سے گریز کیا یہ الیکشن پاکستان کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہوۓ اور چالیس سال گزر جانے کے بعد بھی پاکستان کی سیاست اس الیکشن کے اثرات سے نہیں نکل سکی ضئیائی آمریت کے خلاف پینپی کے بطور احتجاج اس میں حصہ نہیں لیا اگر چہ 53 ایسے امیدوار کامیاب ہوۓ جو پیپلز پارٹی کے امیدوار کہے جاسکتے تھے
1986 میں بینظیر کی وطن واپسی نے پیپلز پارٹی کو ایک نئی زندگی بخشی بینظیر نے خود کو بھٹو کا حقیقی جانشین کے طور پر منواتے ہوۓ پرانے انکلز سے جان چھڑا کر پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرلی تھی
اٹھاسی میں پیپلز پارٹی کے خلاف آئی جے آئی کھڑا کیا گیا تمام دائیں بازو کی جماعتیں اس میں شامل تھیں یہ ہی وہ الیکشن تھا جہاں پیپلز پارٹی نے عملی طور پر اپنے سوشلسٹ پروگرام کو خیر باد کہا اور منڈی کی معیشت پر اپنا یقین ظاہر کیا
مذہبی بنیادوں پر سیاست جو بھٹو دور میں ہوئی بینظیر نے اس سے مکمل کنارہ کیا دوسری اہم تبدیلی نیشنلائزیشن کے حوالے سے آئی جسے اب پرائیویٹائزیشن سے بدل دیا گیابینظیر نے اپنی حکومت کے آغاز میں نیشنلائزیشن کے علاؤہ بھارت دشمنی کو بھی خیر باد کہا آئی جے آئی پنجاب اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے جیت چکی تھی یہاں ایک چیز قابل غور ہے کہ پیپلز پارٹی کو اس کے آئیڈلسٹ روئیے نے بھی سیاسی نقصان پہنچایا ووٹر لسٹوں کا شناختی کارڈ پر بننا بینظیر کے خلاف غیر اخلاقی پروپیگنڈا اور آئی جے آئی کا آسلام کا سیاست میں استعمال پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال ہوے
اٹھاون ٹو بی کی لٹکتی تلوار، جرنیلوں کی من مانیوں،اپنوں کی ناراضگی اور کارکنوں کی توقعات ان سب کے بیچ بیس ماہ کے اس دور میں کوئی قانون سازی نہ ہوسکی اور پورا دور بینظیر اپنے اقتدار کی بقا کے لئے کوششیں کرتی رہیں
بیس ماہ کے دوران انہوں نے انیس غیر ملکی دورے کئے اور اپنی سیاسی حیثیت کو مضبوط کرنے میں لگی رہیں اسی باعث انہیں ملک میں امریکا کے حامی کے طور پر پیش کیا گیا عجب اتفاق کہ عین وہ دن جب امریکا نے عراق پر حملہ کیا بینظیر حکومت گرا دی گئی پیپلز پارٹی کے دوسرے دور میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوسکا البتہ پہلی بار بینظیر کے شوہر آصف زرداری کا نام کرپشن کے حوالے سے اچھالا جانے لگاسیاسی طور پر کوئی ضرورت نہ ہوتے ہوۓ بھی پیپلز پارٹی نے اس بار شہری سندھ کی نمائندہ جماعت مہاجر قومی موومنٹ کو اپنے ساتھ ملایا تھا لیکن یہ کوشش بھی ناکام ہوئی اور سندھ میں سندھی مہاجر تنازعہ سر اٹھانے لگااپنے دوسرے دور حکومت میں پیپلز پارٹی کے ساتھ کرپٹ اور نااہلی کا الزام بھی جڑ گیا مہاجر قومی موومنٹ کی اٹھان کے باعث مہاجروں میں پیپلز پارٹی کو ایک سندھی جماعت کے طور پر پہچانا گیا یہاں یہ قابل ذکر ہے کہ خود پیپلز پارٹی نے بھی اس پہچان کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی پیپلز پارٹی کے سندھی ہارڈ لائنر خود کو ایسے پیش کرتے رہے جیسے وہ مہاجر ووٹ کو اہمیت نہیں دیتے یوں بھی حکومت سازی کے لئے انہیں شہری سندھ کی کوئی ضرورت نہیں تھی
اپنے تیسرے دور میں پیپلز پارٹی نے خود کو فوج کے حوالے حالات کے سانچے میں ڈھالا بنظیر نے افغانستان اور کشمیر پر فوجی پالیسی کو کور کیادوسری اہم تبدیلی عام ورکر سے پارٹی کی دوری تھی اب پیپلز پارٹی اس حقیقت کو قبول کر چکی تھی کہ الیکشن لڑنے کے لئے سرمایہ داروں کی ضرورت ہوگی کراچی میں آپریشن نے سندھ کے شہری علاقوں سے پیپلز پارٹی کے خلاف مزید ناپسندیدگی میں اضافہ کیا

شہروں کی حد تک دائیں بازو میں پیپلز پارٹی کا ووٹ کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ صنعتی نیشنلائزیشن سے صنعت پر اثر نظر آیا لیکن جاگیرداری نظام پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا جو زمین حد بندیوں میں آئی وہ جاگیرداروں کے اپنے ہی ہاریوں کے نام رہی یوں بلواسطہ مالک وہی رہے صنعت میں ایسا نہیں تھا یہاں حکومتی مداخلت اور سیاسی بھرتیوں نے ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچا دئیےاس بار کی کرپشن اقربا پروری اور نا اہلی کی کہانیوں کی گونج پہلے سے زیادہ تھی
کراچی آپریشن میں بے قاعدگیاں اس قدر تھیں کہ پیپلز پارٹی کے اپنے ہی وزیر قانون نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر استعفی دے دیا
اور اپنے ہی صدر لغاری نے بینظیر حکومت کو برطرف کردیا
الیکشن میں پیپلز پارٹی ایک خراب پوزیشن کے ساتھ گئی ستانوے میں صرف اٹھارہ افراد کے ساتھ اپوزیشن کرنے کے بعد آئینی ترمیم کے لئے بینظیر نے نواز شریف کا ساتھ دیاانتقامی کارروائیوں نے بینظیر کو جلاوطن ہونے پر مجبور کردیا مشرف کے مارشل لاء کو بینظیر نے خوش آمدید کہا یہ پیپلز پارٹی کی آئیڈلزم والی سیاست سے مکمل۔انحراف تھا لیکن مشرف معتدل مزاج آمر ہونے کے باوجود بنظیر اور نواز شریف کو پاکستان سے سیاست میں ایک بوجھ سمجھتے تھے اور انہیں آوٹ کرنے کی کوشش میں تھی
پیپلز پارٹی کی تاریخ رہی ہے کہ وہ حکومت میں ہوتے ہوۓ جں الیکشن میں گئی تو رویہ معذرت خواہانہ اور ہاتھ خالی رہے جب کہ اپوزیشن کے راستے سے ہوکر الیکشن لڑنا بہتر رہا
دوہزار دو میں بنظیر کی غیر موجودگی کے باوجود پیپلز پارٹی نشستوں کے لحاظ سے دوسری اور پاپولر ووٹ میں سب سے بڑی جماعت ثابت ہوئی پیپلز پارٹی دیگر جماعتوں کے برعکس ایک وفاقی اور کثیر اللسانی جماعت کے طور پر سامنے آئی لیکن فوجی حکومت نے اس کے لوگوں کو توڑا اور الگ جماعت بنا ڈالی صرف یہ ہی نہیں مشرف نے اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کو اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہو کر بھی اپوزیشن لیڈر شپ سے محروم رکھا شاہ محمود قریشی کے بجاۓ مولانا فضل الرحمان اپوزیشن لیڈر منتخب ہوۓ

پیپلز پارٹی نے اس دور میں اپنے اندر جوہری تبدیلیاں پیدا کیں
خود کو لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے طور پر پیش کیا یہاں تک کہ دہشت گردی اور حدود آرڈیننس میں مشرف حکومت کا ساتھ دیا
اس کے علاؤہ اہم ترین واقعی میثاق جمہوریت تھا جہاں ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کی مخالفت میں غیر جمہوری قوتوں کا آلہ کار نہ بننے کا فیصلہ کیا
میثاق جمہوریت اتنا سنجیدہ معاہدہ تھا کہ پاکستان کی سیاست کو اس نے تبدیل کردیا سیاست دان پہلی بار اس حقیقت کا اعتراف کررہے تھے کہ وہ غیر جمہوری قوتوں کے کام آتے رہے جس سے ان کا مخالف نہیں وہ خود بھی کمزور ہوۓمیثاق جمہوریت نے ن لیگ کی دم توڑتی سیاست کو دوبارہ زندہ کیا اور نواز شریف کی سیاسی واپسی کی راہ بھی ہموار ہوئی بدقسمتی سے میڈیا نے میثاق جمہوریت کو اس طرح سے ہائی لائٹ نہیں کیا جیسا کیا جانا چاہیے مستقبل میں مورخ اسے آئین پاکستان کے بعد سب سے اہم دستاویز کے طور پر متعارف کرواۓ گا
بینظیر کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی نے سندھ اور وفاق میں حکومت بنائیں قیادت اب آصف علی زرداری کے ہاتھ میں تھی زرداری نے سیاسی جماعتوں سے محاذ آرائی سے گریز کیا اور مفاہمت کو اپنایالیکن اس مفاہمتی پالیسی کے نتائج خود پیپلز پارٹی کے حق میں اچھے ثابت نہ ہوۓ پنجاب جو کبھی پیپلز پارٹی کا سیاسی پاور بیس تھا وہ پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکل گیاسندھ میں پیپلز پارٹی نے خود کو ایسی جماعت کے طور پر پیش کرنا شروع کیا جو کہ ایک قوم پرست جماعت ہے جو سندھ کے مفادات کا خیال وفاق میں رکھ سکتی ہے اٹھارویں ترمیم سے پیپلز پارٹی نے صوبائی خودمختاری دی ساتھ ہی سندھ کی حد تک پیپلز پارٹی نے خود کو ایک ایسی جماعت کے طور پر پیش کیا جو قوم پرست ہے وفاق میں سندھ کے مفادات کا خیال رکھتی ہے پنجاب یا وفاق سندھ مخالف ہیں لیکن کیونکہ پیپلز پارٹی ہے اس لئے سندھ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں
اس دور میں پیپلز پارٹی نے خود کو ایک صوبائی جماعت کی حد تک محدود کرلیا صوبے میں غیر سندھی ووٹر کے ساتھ اجنبیت کا سلوک ہونے لگا وسائل کی تقسیم کی جنگ پھر شروع ہوئی زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے پانچ سال پورے کئے پہلی بار خاتون اسپیکر بنائی گئی اقلیتوں کو سینیٹ میں جگہ ملی صوبوں کے مالی مسائل کم ہوۓ وفاق نے وسائل کی تقسیم میں بلوچستان فاٹا کا حصہ بڑھایا انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا برآمدات پہلی بار پچیس ارب ڈالر پر پہنچی
ملک بدترین دہشت گردی لوڈ شیڈنگ کا شکار تھا پیپلز پارٹی نے اپنی سیکولر شناخت کو برقرار رکھتے ہوۓ دہشت گردی کے آگے سرنڈر کرنے سے انکار کیا اور اسکی قیمت انہیں دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں شکست کی صورت میں چکانا پڑی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کسی جماعت کو غیر ریاستی عناصر نے انتخابی مہم چلانے سے روکابیوروکریسی میں اپنے حامی گھرانوں کے بچوں کو بھیجنا شروع کیا گیا یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ میڈیا میں سرمایہ کاری کی جاۓ لیکن بڑے میڈیا کے بجاۓ پیپلز پارٹی کی حکمت عملی تھی کہ چھوٹے لیول پر میڈیا میں امیج بنایا جاے اور سیاسی سے زیادہ سماجی ثقافتی طور خود کو سندھ کا محافظ بنا کر پیش کیا جاۓ اس میں پیپلز پارٹی شہری سندھ سے مزید دور ہوئی وفاق کی علامت اب ایک صوبے کی جماعت تھی
پیپلز پارٹی کی دو بڑی ناکامیاں جو سندھ میں صرف شہداء کے مزارات کے پیچھے چھپ گئیں
پہلی جبری مذہب تبدیلی جسے روکنے میں پیپلز پارٹی مکمل طور پر ناکام رہی میاں عبد الحق عرف میاں مٹھو پیپلز پارٹی کے رکن تھے اور جبری مذہب تبدیل کرانے کے روح رواں بھی
دوسری ناکامی مالی وسائل کی یکساں تقسیم ہے پیپلز پارٹی کے دور میں پندرہ سال کے باوجود عام آدمی کو گورننس اور اٹھارویں ترمیم کے ثمرات نہیں مل سکے امیر اور غریب کے درمیان کی خلیج وسیع ہوئی
اہم کامیابی یہ رہی کہ پیپلز پارٹی سندھ کی حد تک ایسا سیاسی کلچر متعارف کرانے میں کامیاب رہی جہاں ووٹ پارٹی کا ہے نا کہ شخصیات کا اس سے کئی لوگ جو دھڑے برادری کی روایتی سیاست کررہے تھے مکمل طور پر ناکام ہوۓ
پیپلز پارٹی کے سندھ میں منفی اثرات یہ ہوۓ کہ سندھ میں اپنے خلاف بات کرنے یا تنقید کو وہ سندھ دشمنی کے طور پر پیش کرتے رہے یہ کسی حد فاشسٹ رویہ تھا جیسے بی جے پی یا پیوٹن اپنے مخالفین کو غدار کہتے ہیں پندرہ سال میں انتظامی طور پر پیپلز پارٹی بہت حد تک ناکام رہی عوام کا معیار زندگی بہتر نہیں ہو سکا
دو ہزار سولہ میں بلاول نے عملی طور پر پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی بلاول نے سندھی ہارڈ لائنرز کے اثرات کو کم کیا اور اس سے پیپلز پارٹی کو شہری سندھ میں اسپیس ملی پیپلز پارٹی نے خود کو ایک ایسے ہمدرد کے طور پر ابھارا جس کے ساتھ ہی غیر سندھی خود کو جوڑ کر کامیاب ہوسکتے ہیں نوجوانوں میں بڑھتے ہوۓ عمران خان کے اثرات کو کم کرنے کی بلاول نے پوری کوشش کی پنجاب میں پارٹی کو اپنی انتھک محنت سے دوبارہ زندہ کیاپچھلے بیس سال میں پنجاب۔ میں جو ووٹر پیدا ہوا وہ سماجی طور پر پیپلز پارٹی سے دور تھا جس نے پیپلز پارٹی کا دور نہیں دیکھا تھا جسے بھٹو اور بینظیر کا نہیں پتہ تھا جس نے پیپلز پارٹی کے لئے صرف میڈیا کا پروپیگنڈا ہی سنا تھا بلاول نے اس ووٹر کو جتایا کہ وہ ان کا اپنا ہم عمر ہے
سندھ میں بلاول کی قیادت میں یہ پالیسی اپنائی گئی کہ پیپلز پارٹی سب کی پارٹی ہے اس سے غیر سندھی ووٹر بھی پیپلز پارٹی کی جانب راغب ہوا
مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اب اپنے نظریات میں لیفٹ کی جماعت نہیں رہی جو سوشلسٹ پروگرام کی بات کرتی تھی یہ ایک جاگیر دار اور سرمایہ داروں کی جماعت ہے جو ایک لبرل جمہوریت پسند جماعت ہے جو دیگر جماعتوں کی طرح مزہب کو سیاست کے لئے استعمال نہیں کرتی جو کسی حد تک درست بھی ہے لیکن ساتھ ہی اپنی انتظامی صلاحیتوں اور قوم پرست خیالات پر نظر ثانی کرنے کو بھی تیار نہیں آج بھی پیپلز پارٹی کا بیانیہ گڑھی خدا بخش کی قبروں پر مبنی ہے
لیکن دوسرا رخ یہ ہے کہ پاکستان میں وفاق کی علامت مذہبی انتہا پسندی کے خلاف دیوار اور جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے والی جماعت بھی صرف پیپلز پارٹی ہی ہے

50% LikesVS
50% Dislikes

By admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *