پیپلز پارٹی کا منشور سوشلزم تھا اور دائیں بازو کے نزدیک یہ غیر اسلامی تھا۔ جن کے اثاثے قومیاۓ گئے تھے ،دائیں بازو کے صحافی ،صنعت کار یہ تمام ضئیا کے مارشل لاء کو خوش آمدید کرتے پاۓ گئے۔دوسری جانب ضئیا نے اسلام کو بطور نظام نافذ کرنے کے خواب دکھا کر اسلام پسندوں اور دائیں بازو کے حامیوں کی ہمدردیاں حاصل کر کے اپنے اقتدار کے لئے legitimacy حاصل کی۔
1970 کے الیکشن میں دائیں بازو کی جماعتوں کے فنانسر زیادہ تر صنعت کار تھے یہ لوگ ایوب دور میں چلنے والی سوشلسٹ لہر کے مخالف تھے اس لئے دائیں بازو کی جماعتوں کو مالی طور پر سپورٹ کرنا انکی بقا کا مسلئہ تھا یہ ہی لوگ پیپلز پارٹی کے خلاف میڈیا مہم کے بھی سپورٹر رہے یہاں تک کہ مذہبی جماعتیں ان کی ایما پر سوشلزم کو کفر کا نظام اور سوشلسٹوں کو کافر کے فتوے جاری کرتی رہیں
بھٹو کی نشنلائزیشن کا سب سے بڑا نقصان اسی صنعت کار گروپ کا ہوا جب انکے اثاثے قومیا لئے گئے ۔مسلم لیگ ن کا قیام ایک فطری ارتقاء تھا۔جنرل ضیاء نے بھٹو مخالف تمام قوتوں کو سیاسی طور پر ایک جگہ اکھٹا کیا اور انہیں باور کرایا کہ انکی بقا سیاسی طور پر متحد ہونے میں ہے ۔نواز شریف ایسے ہی ایک صنعت کار کے صاحبزادے تھے جو نشنلائزیشن میں اپنا سب کچھ کھو چکے تھے ان کے والد میاں شریف ذوالفقار علی بھٹو کے خلا 1970 کے الیکشن میں جاوید اقبال کے فنانسر رہ چکے تھے ۔پیپلز پارٹی کے حامی عموما اس عنصر کو نظر انداز کرتے رہے ہیں کہ دائیں بازو کا یہ اتحاد ان کے خلاف فطری تھا پاکستان میں اس سے پہلے کاروباری حضرات سیاست میں نہیں آۓ تھے کیونکہ انہیں اسکی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی نشنلائزیشن سے انہیں سمجھ آیا کہ سیاسی طور پر بھی انکی آواز اسمبلیوں میں ہونا ضروری یے
نواز شریف کو روایتی سیاست دانوں سے ہٹ کر دائیں بازو کی قیادت سونپنے کی وجہ یہ تاثر دینا تھا کہ یہ لوگ مجبوراََ سیاست میں آۓ ہیں۔نواز شریف کی سیاست میں انٹری بلاشبہ ایک پیرا شوٹر کی تھی لیکن ان کا طرز سیاست کاروباری شخصیت جیسا تھا۔کوئی بھی دکاندار ہر چیز کو صرف نفع نقصان کی نظر سے دیکھتا ہے اور ساتھ ہی وہ اپنے کام میں کسی کی مداخلت قبول نہیں کرتا نواز شریف نے ضئیا کی چھتری تلے اپنے سیاسی کیرئر کا آغاز تو کیا لیکن انہیں جلد ہی یہ بات سمجھ آگئی کہ انہیں اگر اپنے معاملات پر گرفت رکھنی ہے تو سب کچھ ان کی مرضی کے مطابق ہونا ضروری ہے ۔اسی وجہ سے انہوں نے اپنے حامی گھرانوں کے بچوں کو سول سروس میں بھیجنا شروع کیا عدلیہ میں ایسے وکلا کو جج بنایا جو نواز شریف کے حمایتی سمجھے جاتے تھے یا ان کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔
1985 کا الیکشن نواز شریف کی کامیابی کا سورج طلوع ہونے والا الیکشن تھا۔غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والا یہ الیکشن پاکستان میں پہلی بار نظریات کے بجاۓ شخصیات کا الیکشن تھا۔نواز شریف جنرل جیلانی کی آشیرباد سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوۓ۔وزیر اعلیٰ بن کر نواز شریف نے سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کی انہوں نے خود کو مذہبی حلقوں کے قریب کیا دوسری جانب وہ خود کو پنجاب کا رہنما بنا کر پیش کرتے رہے۔پیپلز پارٹی کے حوالے سے وہ ایک ہارڈ لائنر تھے دس اپریل 1986 کو بینظیر کی واپسی پر وہ جلوس کی اجازت نہیں دینا چاہتے تھے وزیراعظم محمد خان جونیجو کی مداخلت پر انہیں اپنی ضد سے پیچھے ہٹنا پڑا۔اپنے دور وزارت اعلیٰ میں نواز شریف نے نوکریاں فراہم کیں۔انفراسٹرکچر پر کام کیا۔
1988 کے الیکشن میں اگر چہ آئی جے آئی کے سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی تھے لیکن اس اتحاد کی چہرہ نواز شریف تھے آئی جے آئی نے پنجاب سے 44 قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کیں لیکن سیاسی انجینرنگ کے نتیجے میں وہ تین بعد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں 105 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور پنجاب کی حکومت ان کے حصے میں آئی 1989 میں نواز لیگ نے بینظیر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی اگر چہ بینظیر معمولی مارجن سے اپنی حکومت بچانے میں کامیاب رہیں لیکن اس سے ن لیگ ایسی جماعت کے طور پر سامنے آئی جو ارکان اسمبلی کی خریدوفروخت سے وفاداری تبدیل کرنے کی حامی ہے یہ ن لیگ کی سیاست کے لئے ایک دھبا تھا
یہ عرصہ مجموعی طور پر مرکز اور صوبے کی کھینچا تانی میں گزرا نواز شریف خود کو مقتدر حلقوں کے ویب کرنے میں کامیاب رہے بینظیر حکومت کی برطرفی کے بعد نومبر 1990 میں ہونے۔ والے عام انتخابات متنازعہ تھے آئی ایس آئی کے ذریعے پیپلز پارٹی مخالف جماعتوں میں رقومات بانٹی گئیں عدالتی تاریخ میں یہ اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہوا 1990 کی انتخابی مہم کے دوران پہلی بار مذہب کے نام۔پر سیاسی مخالفین کے خلاف فتویٰ جاری کیا گیا خواتین کی کردار کشی کی گئی مخالف کو غدار بتایا گیا یہ ٹرینڈ ن لیگ نے متعارف کروایا
آئی جے آئی اس الیکشن میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی پیپلز پارٹی 44 اور آئی جے آئی کی 106 نشستیں تھیں مخلوط حکومت قائم ہوئی نواز شریف نے پرائیوٹائزیشن شروع کی سرمایہ کاری پاکستان میں لانے پر کام کیا انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ پر توجہ دی اور بیمار سرکاری یونیٹس کو نجی تحویل مین دیا گیا مخالفین نے الزام لگایا کہ اس نجکاری میں نواز شریف کے سیاسی فنانسرز نے فائدہ اٹھایا ہے مجموعی طور پر نواز شریف اپنے پہلے دور حکومت میں یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہے کہ وہ اکاتوبار دوست پالیسیوں کا نفاذ چاہتے ہیں 1991 میں ہونے والا پانی کا معاہدہ نواز شریف کا۔اہم کارنامہ رہا اس کے علاؤہ وہ این ایف سی ایوارڈ پر بھی قومی اتفاق حاصل کرنے میں کامیاب رہے
نواز شریف کا پہلا اختلاف فوج سے خلیجی جنگ پر ہوا امریکہ کے عراق حملے کے نتیجے میں آرمی چیف اسلم بیگ امریکہ مخالف پالیسی اپنانا چاہتے تھے نواز شریف نے خود کو اس معاملے سے الگ رکھا اسلم بیگ کے اثر کو ختم کرنے کے لئے نواز شریف نے صدر اسحاق خان کو نئے آرمی چیف کی تعیناتی کی سمری تین ماہ قبل ہی پیش کردی اور جنرل آصف نواز آرمی چیف بن گئے
ادھر سندھ میں ن لیگ اقلیتی جماعت ہوتے ہوۓ بھی جام صادق علی کی ریشہ دوانیوں کے سبب مہاجر قومی موومنٹ سے مل کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے سب کچھ نواز شریف کے کنٹرول میں تھا کہ انہوں نے فوج کی مدد سے سندھ میں پہلے ڈاکوؤں اور بعد میں اپنی ہی اتحادی جماعت مہاجر قومی موومنٹ کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا اس آپریشن سے سندھ اور بالخصوص کراچی میں ن لیگ کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی سندھ کے عوام نے اس آپریشن کو خالص پنجابی اور غیر پنجابی کی حیثیت سے دیکھاسندھ کی افراتفری کے دوران ہی نواز شریف کے اپنے صدر اسحاق خان سے اختلافات بڑھ گئے اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ بنظیر بھٹو نے کاروان نجات کا آغاز کردیا دسمبر 1992 میں بینظیر نے اپنے ارکان اسمبلی کے استعفےںپیش کردئیے مارچ 1993 میں صدر نے ن لیگ کی حکومت برطرف کردی جسے سپریم کورٹ نے بحال کردیا بعد میں آرمی چیف نے صدر اور وزیراعظم دونوں کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا جس کے بعد سیاسی بحران ٹل سکا
اصولی طور پر نواز شریف کا موقف درست تھا کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے وہ ہر بات کے زمہ دار ہیں لیکن یہ سب وہی کچھ . تھا جو وہ بینظیر حکومت کے خلاف کرتے رہے تھے

اپنے دو سالہ دور حکومت میں ن لیگ نے بھرپور انتقامی کارروائی کی پیپلز پارٹی کے رہنماؤں پر سیاسی مقدمات بناۓ یہاں تک کہ اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کو ریاستی جبر کا نشانہ بنایا
اکتوبر 1993 کے الیکشن میں ن لیگ کو 72 اور پیپلز پارٹی کو 86 نشستیں حاصل ہوئیںپنجاب میں ن لیگ 113 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بنی لیکن پیپلز پارٹی نے منظور وٹو کے ساتھ مل کر اپنی حکومت بنا لی صوبہ سرحد میں ن لیگ کی 43 پیپلز پارٹی کی 39 نشستیں تھی صابر شاہ کی حکومت کو پیپلز پارٹی کے آفتاب شیر پاؤ نے صرف پانچ ماہ میں عدم اعتماد کے ذریعے گرا دیا شیرپاؤ نے اس کے لئے فلور کراسنگ والا حربہ استعمال کیا جو کبھی سندھ میں نواز شریف پیپلز پارٹی کے خلاف متعارف کروا چکے تھے

بینظیر کی تین سالہ حکومت میں ن لیگ کا کردار منفی اپوزیشن کا رہا جو ایشوز کے بجاۓ صرف ذاتیات اور غداری کے الزامات کی سیاست کرتی رہی
صدر لغاری نے بینظیر حکومت برطرف کی تو فروری 1997 کے ہونے والے الیکشن میں نواز شریف برسر اقتدار آگئے انہوں نے دو تہائی اکثریت حاصل کی دوسری طرف یہ الیکشن 26 فیصد ٹرن آؤٹ کے ساتھ سب سے کم ٹرن آؤٹ والا الیکشن ثابت ہوا ن لیگ نے پنجاب سرحد اور سندھ میں حکومت بنائی سندھ میں ایک بار پھر ان کے ساتھ ایم کیو ایم تھی اس دور میں ن لیگ ہر طرح سے پر اعتماد تھی صدر اور آرمی چیف کے استعفے کے بعد ان کا اعتماد آسمان کو چھو رہا تھا چیف جسٹس کے ساتھ ان کی لڑائی میں ججز نے اپنے ہی چیف کے ساتھ بغاوت کردی جس میں نواز شریف پر پیسے کی طاقت چلانے کا الزام بھی لگا ریاستی اداروں سے کامیاب ٹکر اور اپوزیشن لیڈر کے جلاوطن ہونے پر ان کا اعتماد آسمان کو چھونے لگاساتھ ہی وہ قوم کی تقدیر بدلنے کے لئے بھی پرعزم تھے
ن لیگ نے اس دور حکومت میں قرض اتارو ملک سنوارو کی مہم چلائی جو کامیاب ہوئی لیکن بدقسمتی سے اس کے نتیجے میں موصول ہونے والی رقوم قرض اتارنے میں استعمال نہیں ہوئیں
دو تہائی کا فایدہ اٹھا کر ن لیگ نے آٹھویں ترمیم کے صدارتی اختیارات کو کم کیا فلور کراسنگ کے خلاف ترمیم پیش کی اس میں پیپلز پارٹی نے ان کا ساتھ دیا معاہدہ لاہور کیا وزیراعظم واجپائی لاہور بس سے آۓ دونوں ملکوں میں اچھے تعلقات کی ابتدا ہوئی
دوسری جانب نواز شریف اپنی پوری قوت سے سیاسی مخالفین کو کچلنے میں مصروف رہے آصف زرداری پر یکے بعد دیگرے سیاسی مقدمات بناۓ گئے سیاسی مخالفین کو خوفزدہ کرنے کے لئے نیب کا ادارہ بنایا گیا اور سیاسی مخالفین پر کرپشن کیسز بناۓ گئے
آصف زرداری پر بہیمانہ تشدد کرکے ان کی زبان کاٹنے کی کوشش کی گئی متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں کا ماورائے عدالت قت جاری رہا کراچی میں اپنے ہی اتحادی سے کشیدگی اس وقت عروج پر پہنچی جب حکیم سعید قتل ہوے ان کے قتل کے الزام میں متحدہ کارکنوں کی گرفتاریاں ہوئیں جن میں سے ایک دوران تفتیش تشدد سے ہلاک ہوگیا اس کے نتیجے میں ایم کیو ایم نے اپنی حمایت واپس لے لی اور سندھ میں گورنر راج لگا دیا گیا
نواز شریف ایک کے بعد دوسرا محاذ فتح کررہے تھے انہوں نے پندرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے اسلامی نظام نافذ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن سینیٹ میں ن لیگ کے پاس مطلوبہ تعداد نہ ہونے کے سبب وہ ایسا نہ کرسکے پندرہویں آئینی ترمیم ملک میں پارلیمانی نظام کو اسلامی نظام سیاست سے اس طرح ہم آہنگ کرتی جس کے بعد چیف ایگزیکٹو لامحدود اختیارات کا حامی ہوجاتا۔
ایک طرف نواز شریف کی طاقت بڑھ رہی تھی دوسری طرف ملک کی مجموعی سیاسی و معاشی صورتحال بگڑ رہی تھی 28 مئی 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد سے ملک سنگین معاشی بحران کی زد میں تھا۔فروری 1999 کے واجپائی کے دورہ لاہور کے بعد نواز شریف کو کارگل کی عسکری و سفارتی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا کارگل مسلئہ کشمیر حل کرانے کی ایک بھونڈی کوشش تھا جسے مبینہ طور پر نواز شریف کی منظورہ حاصل نہیں تھی دوسری طرف عسکری ذرائع کہتے ہیں کہ یہ ایڈونچر مکمل طور پر ان کی مرضی سے ہوا چار جولائی 1999 کو نواز شریف صدر کلنٹن سے ملے اور انہیں پاکستانی فوج کی باحفاظت واپسی یقینی بنانے کی درخواست کی

فوج اور نواز شریف کے تعلقات بگڑتے چلے گئے یہاں تک کے نواز شریف نے جنرل مشرف کو انکی سری لنکا سے واپسی پر برطرف کردیا نواز کے اس اقدام کو فوج نے داخلی مداخلت جان کر نواز شریف کے خلاف بغاوت کردی اور نواز شریف دو تہائی کے باوجود معزول کردئیے گے ان پر طیارہ سازش کیس چلایا گیا۔
سزا کے بعد مبینہ طور پر نواز شریف ڈیل کرکے باہر چلے گئے انہوں نے دس سال کے لئے سیاست سے کنارہ کشی کا وعدہ کیا مبینہ طور پر یہ ڈیل صدر کلنٹن نے سعودی ولی عہد شہزادہ عبداللہ کے ذریعے کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔مشرف کے زمانے میں پہلی بار کلثوم نواز ن لیگ کا مزاحمتی کردار بن کر ابھری اپنے شوہر اور بحالی جمہوریت کے لئے کلثوم نواز بے جگری سے مشرف کی فوجی حکومت سے ٹکرا گئیں
جنرل مشرف نواز اور بینظیر کو ملکی سیاست کے لئے غیر ضروری سمجھتے تھے دو ہزار دو میں ن لیگ نے عام انتخابات میں سولہ نشستیں حاصل کیں لیکن پاپولر ووٹ میں وہ پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے بعد تیسرے نمبر پر تھے ن لیگ نے مجموعی ووٹ کا سولہ فیصد حاصل کیا یہ 63 نشستوں والی متحدہ مجلس عمل سے زیادہ تھا۔مشرف دور ن لیگ کے لئے ایک مشکل دور تھا ن لیگ کے رہنماؤں کو قیدوبند اور کوڑوں کی سزا بھگتنا پڑی ستم ظریفی کہ جو نیب ن لیگ نے مخالفین کو کچلنے کے لئے بنایا تھا اس میں خود وہ بھی پھنس گئی مشرف نے ن لیگ کے خلاف کرپشن اور بغاوت کے مقدمات بناۓ۔بدقسمتی سے ن لیگ نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے لئے پیپلز پارٹی کے بجاے ایم ایم اے کی حمایت کی جس سے سترہویں ترمیم منظور ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔میثاق جمہوریت جس کا پہلے ذکر کیا جاچکا ہے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کا اعتراف تھا کہ وہ اب ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے۔بینظیر بھٹو کی وطن واپسی سے نواز شریف کے واپس آنے کی راہ ہموار ہوئی۔دونوں جماعتوں میں ساتھ چلنے پر اتفاق تھا اور صاف نظر آرہا تھا کہ بینظیر تیسری بار وزیراعظم بننے جا رہی ہیں جنرل مشرف رجعت پسند نواز سے زیادہ لبرل بینظیر کو پسند کرتے تھے ن لیگ نواز شریف کی واپسی کے باوجود مشکلات کا شکار تھی نتائج دو ہزار دو سے بہتر نظر آرہے تھے البتہ نوے کی دہائی والی کامیابی ابھی دور تھی۔27 دسمبر کو بینظیر بھٹو کی شہادت ہوئی نواز شریف اسپتال پہنچنے والے پہلے سیاسی رہنما تھے انارکی پھیل گئی اور نواز شریف نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا جسے آصف زرداری کے اصرار پر واپس لیا بینظیر کی شہادت سے پیدا ہونے والا خلا نواز شریف نے پر کیا ق لیگ پورے ملک میں بیک فٹ پر چلی گئی جس کا ن لیگ کو بھرپور فایدہ ہوا۔بینظیر کی شہادت نے ن لیگ کی سیاست کو نئی زندگی دی۔دو ہزار آٹھ کے الیکشن میں ن لیگ 68 نشستوں کے ساتھ دوسری بڑی جماعت تھی اور پنجاب پر اب اسکی حکمرانی تھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا وفاق میں اتحاد تو تین ماہ بعد ختم ہوگیا لیکن ان کا پنجاب میں اتحاد اگلے چار سال تک چلا۔ن لیگ نے اس بار پیپلز پارٹی سے ہونے والی مفاہمت کے جواب میں جاوید ہاشمی کے بجاۓ چوہدری نثار کو اپنا قائد حزب اختلاف بنایا یہ اس بات کا مظہر تھا کہ ن لیگ پہلے کی طرح شدید مخالفت والی اپوزیشن نہیں کرے گی۔دونوں جماعتوں نے اٹھارویں ترمیم منظور کی۔دونوں جماعتوں کے درمیان پہلا تنازعہ ججز کی بحالی تھ ن لیگ اس پر لانگ مارچ پر نکل آئی جس پر جنرل کیانی کی مداخلت پر ججز بحال ہوۓ۔یہاں ن لیگ اگر چہ ججز بحال کروانے میں کامیاب ہوگئی اور کسی حد تک یہ پاپولسٹ رویہ تھا لیکن یہ میثاق جمہوریت کی خلاف ورزی اور فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کی دعوت تھی۔ن لیگ کا رویہ پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ گاجر اور چھڑی کا رہا شہباز شریف چھڑی کے کر پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف تھے اور نواز شریف یہ ہی کام گاجر سے کررہے تھے میمو گیٹ اسکینڈل میں نواز شریف پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف عدالت گئے یہ کیس فوج کو سیاسی معاملات پر مضبوط گرفت دے گیا جمہوری حکومت اس کے نتیجے میں بیک فٹ پر آگئی میثاق جمہوریت کی یہ دوسری سنگین خلاف ورزی تھی۔دو ہزار تیرہ کا الیکشن ن لیگ نے ملک سے بجلی بحران ختم کرنے اور امن و امان کے نعرے پر لڑا یہاں ن لیگ کی مدد حکیم اللہ محسود نے کی جس نے پیپلز پارٹی اے این پی اور ایم کیو ایم کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا نواز شریف کے لئے اسی الیکشن میں، پنجاب میں تیس سال میں پہلا بڑا سیاسی خطرہ عمران خان کی صورت میں ابھرا عمران خان تبدیلی کا نعرہ لے کر اٹھے ان کا نعرہ اسٹیٹس کو توڑنے کا وعدہ تھا میڈیا نے انہیں بھرپور پذیرائی دی دوہزار تیرہ میں ن لیگ سب سے بڑی جماعت بنی پنجاب میں انہیں بھاری اکثریت حاصل ہوئی جب کہ بلوچستان میں وہ نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ن لیگ کے دور میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں کمی آئی لیکن بلوچستان حکومت مکمل طور پر سدرن کمانڈ کے زیر اثر آگئی اور کور کمانڈر ڈی فیکٹو وزیر اعلی بن گئے ن لیگ نے کراچی میں آپریشن شروع کیا بدقسمتی سے یہ آپریشن حسب روایت سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لئے ثابت ہوا سینیٹ الیکشن کے اگلے ہی دن نائن زیرو پر چھاپہ مارا گیا جس سے سیاسی جماعتوں پر عسکری من مانیوں کا نیا راستہ کھلا۔اس بار کی حکومت میں ن لیگ کا ناطقہ ان کے سب سے بڑے مخالف عمران خان نے بند کئے رکھا عمران خان ن لیگ کی مذہب اور خواتین والی سیاسی روایات کو کئی قدم آگے لے گئے پہلی بار ن لیگ کو محسوس ہوا کہ وہ اپنے مخالفین کے ساتھ کیا کرتے رہے ہیں۔سانحہ پشاور کے بعد نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا یہاں فوجی عدالتوں کے قیام اور انتظامیہ پر ایپکس کمیٹیوں کی تشکیل نے سیاسی منتظمین کو مزید کمزور کیا جس کا نقصان سیاسی قوتوں کو اٹھانا پڑا۔خارجہ سطح پر ن لیگ چار سال تک وزیر خارجہ کا تعین نہ کرسکی اور خارجہ تعلقات براہ راست پہلی بار فوج کے ہاتھ میں چلے گئے جس سے سیاسی طور پر پاکستان کی سفارتی پوزیشن متاثر ہوئی نواز شریف کی مودی سے دوستی کی خواہشات کو فوج نے ناپسندیدگی سے دیکھا ڈان لیکس اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا اور فوج اور سویلین حکومت کے تعلقات تناؤ کا شکار ہوتے چلے گئے سیاسی محاذ پر پیپلز پارٹی کی سپورٹ کے باوجود نواز شریف عدالت کے زریعے نااہل قرار پائے اور اس بار بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکے۔اسمبلی تو مدت پوری کرگئی لیکن دو وزیراعظم بناے گئے ن لیگ کی اس حکومت نے ایک طرف امن و امان قائم کیا دوسری طرف بجلی کے بحران پر قابو پایا پاکستان کی مجموعی معاشی حالت بہتر ہوئی مہنگائی اور کرپشن میں کمی آئی۔ دوسری طرف بجٹ خسارہ بڑھ گیا اور ایکسپورٹ میں کمی آئی ایکسپورٹ میں کمی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ سی پیک کے نتیجے میں بھاری مشینری درآمد کی گئی ہے جس سے ایکسپورٹ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اثر انداز ہوۓ ہیں۔دو ہزارہ اٹھارہ کے الیکشن میں ن لیگ اس طرح گئی کہ نواز شریف اور انکی صاحبزادی پر مقدمات تھے ن لیگ کے خلاف عدالتی جبر عروج پر تھا لیگی رہنماؤں پر کفر کے فتوے لگاۓ جا رہے تھے اور وہ اپنے مسلمان اور عاشق رسول ہونے کے ثبوت پیش کرنے پر مجبور تھے لیگی رہنماؤں کو انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا اور ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ان تمام ہتھکنڈوں کے بعد ن لیگ ملکی سطح پر دوسری اور پنجاب میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔عمران خان کا دور حکومت ن لیگ کے لئے نوے کی دہائی اور مشرف دور سے زیادہ کٹھن ثابت ہوا نواز شریف اور انکی صاحبزادی مریم نواز جیل میں تھیں ن لیگ کے دیگر رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالا گیا اسمبلی سیشن شروع ہونے کے کچھ ماہ کے اندر ہی شہباز شریف جو کہ اپوزیشن لیڈر تھے گرفتار کرلیا گیا۔اس جبر کا ن لیگ کو سب سے بڑا سیاسی فائدہ یہ ہوا کہ بائیں بازو کے انٹلکچول پہلی بار ن لیگ کو سنجیدہ سیاسی جماعت کے طور پر پہچاننے لگے۔ن لیگ ایسی جماعت کے طور پر سامنے آئی جو کہ جمہوریت اور جمہوری اقدار پر یقین رکھتی ہے۔لیکن دوسری طرف یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں آ کر ہی جمہوریت کا ادراک کرپاتی ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت ن لیگ کے لئے سب سے مشکل وقت تھا۔ن لیگ مذہبی محاذ پر ناکام ہوئی یہاں وہ اپنی سیاسی حمایت کھو بیٹھی۔لیکن یہاں ن اپنے وجود کو میڈیا کی مدد سے قائم رکھا اپنے حامی میڈیا ہاؤسز کی مدد سے ن لیگ سیاسی طور اپنے آپ کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہی اور تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود میڈیا کے ذریعے انتقامی کارروائیوں کا تاثر دینے میں کامیاب رہی جو بڑی حد تک درست تھا۔نواز شریف کے علاج کے سلسلے میں باہر جانے کے بعد ن لیگ کی سیاسی سرگرمیوں میں ٹھہراؤ آیا فوج کے ساتھ اپنی مخالفت کا نتیجہ سینیٹ الیکشن میں بھگتنا پڑ ا جب ن لیگ کو ان کے انتخابی نشان سے محروم کیا گیا۔ن لیگ کا میڈیا پرسپشن جو بھی ہو نواز شریف کی لندن روانگی اور پے در پے سیاسی ناکامیوں نے ن لیگی قیادت کا اعتماد مجروح کیا تھا پی ڈی ایم کے قیام کے بعد ن لیگی سیاست میں جان آئی اور جلسے جلوسوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا عدم اعتماد کی تحریک میں ن لیگ اعتماد کی کمی کا شکار تھی جسے پیپلز پارٹی نے بروقت ریسکیو کرکے کامیاب کرایا۔سولہ ماہ کا یہ ن لیگ کا چوتھا دور حکومت تھا یہ پہلی بار تھا کہ ن لیگ وفاق میں وزارت عظمیٰ رکھ کر بھی کسی بھی صوبے میں حکومت سے محروم تھی۔ن لیگ جب برسر اقتدار آئی تو فوج تاریخ کی سب سے کمزور ترین پوزیشن پر تھی پاکستان کی معاشی حالت بدتر تھی نومئی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے فوج کو دوبارہ گرفت مضبوط کرنے کا موقع دیا یہاں ن لیگ نے ماضی سے سبق نہ سیکھتے ہوۓ سیاسی مخالفین کو ریاستی اداروں کے ذریعے دبانے کا سلسلہ جاری رکھا سولہ ماہ کا یہ دور پاکستانی عوام کے لئے مشکل ترین رہا۔اس مخلوط حکومت کا پورا زور عمران خان کی طاقت پکڑتی مقبولیت کو کم کرنے میں صرف ہوا پاکستان نے اپنی تاریخ کی بدترین مہنگائی دیکھی سندھ میں طوفانی بارشوں نے بحرانی صورتحال اختیار کرلی سیاسی محاذ پر ن لیگ کو عمران خان مسلسل درد سر بنے رہے۔خارجہ محاذ پر اس حکومت کی کامیابی رہی کہ وہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کا نام بلیک لسٹ ہونے سے بچانے میں کامیاب رہی۔ن لیگ کی سیاسی ناکامی رہی کہ اس حکومت کی ابتدا فوج کی کمزور ترین پوزیشن سے کوئی اور سولہ ماہ میں وہ ستر سال کی مضبوط ترین پوزیشن پر واپس آگئے یہ سب سوشل میڈیا پر چلنے والی مہمات کے باوجود ہوا سیاسی محاذ پر ن لیگ عمران خان کو کاؤنٹر کرنے میں۔ مکمل طور پر ناکام رہی اور مبینہ طور پر میاں نواز شریف کو ڈیل کے ذریعے واپس لایا گیا تاکہ وہ سیاسی طور پر ن لیگ میں جان ڈال سکیں پنجاب میں تحریکِ انصاف کے ساتھ ہونے والے سلوک سے ن لیگ کی عوامی مقبولیت میں کمی آئی جسے نواز شریف نے کسی حد تک بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔ن لیگ کا طرز سیاست عمومی طور پر تعمیری رہا ہے یہ پاکستان کی ایسی جماعت ہے جو انفراسٹرکچر ،انویسٹمںتٹ،ڈویلپلنٹ پر یقین رکھتی ہے ن لیگ کو کاروبار دوست جماعت کے حوالے سے جانا جاتا ہے دہشت گردی کا خاتمہ اور بجلی بحران کی کمی ن لیگ کے کارنامے ہیں پاکستان میں ن لیگ نے انڈیا سے دوستی کی سنجیدہ کوششیں کیں جنہیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ناکام بنایا جاتا رہا ن لیگ کا طرز سیاست کبھی بھی مزاحمتی نہیں رہا ہڑتال جلاؤ گھیراؤ سے ن لیگ دور رہی۔دوسری طرف پاکستان کی سیاست میں مذہب کا سیاسی استعمال ذاتیات اور خواتین کی تذلیل میڈیا میں پیسہ لگانا ن لیگ نے ہی متعارف کرواے۔عدلیہ بیوروکریسی کا سیاسی استعمال ن لیگ نے شروع کیا میثاق جمہوریت کو کمزور کیا پاکستان میں جمہوری روایات کو کمزور کیا فوج کو سیاسی مخالفین کچلنے کے لئے استعمال کیا۔ن لیگ کی سب سے بڑی ناکامی ہے کہ وہ پنجاب کے ایک حصے کی جماعت ہے باوجودِ چار دور حکومت اور پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ عرصہ وزیر اعظم رہنے کے باوجود نواز شریف ن لیگ کو ملکی سطح کی جماعت بنانے میں ناکام رہے یا ممکنہ طور پر انہوں نے اسکی ضرورت نہیں سمجھی۔ن لیگ ایک محب وطن جماعت ہے جو تعمیری سوچ رکھتی ہے لیکن بدقسمتی سے اپنے غیر جمہوری اور سرمایہ دارانہ روئیے کے باعث جمہوریت کو کمزور کرنے میں استعمال ہوتی رہی ہے ۔پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں مضبوط جڑیں رکھنے کے باوجودِ ن لیگ عوام کی طاقت پر یقین رکھنے والی جماعت نہیں بن سکی۔ملکی سیاست میں ن لیگ کے مجموعی اثرات منفی رہے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

By admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *