میں نے نوشتۂ دیوار یا دیواروں پر لکھے سے بہت کچھ سیکھا ہے، بلکہ یوں کہہ لیں کہ دیواروں کے لکھے نے جستجو کو مہمیز دی. سب سے پہلے مردانہ کمزوری کا مجھے دیواروں سے ہی پتہ چلا. میں نے حسب عادت ابا سے پوچھا کہ یہ مردانہ کمزوری کیا ہوتی ہے ، تو وہ ہنسنے لگے ، کچھ نہ بولے . یہاں سے شوق کو مہمیز ملی تو میں نے دادی سے پوچھ لیا، وہ بھی پہلے تو ہنسیں پھر ڈانٹنے لگیں کہ کیا الٹا سیدھا بولتا رہتا ہے. آخر کار ابا نے کہا کہ بڑے ہو گے تو پتہ چل جاۓ گا. میں نے بڑے ہونے کا صرف اس وجہ سے بہت انتظار کیا ہے کہ پتہ چلے کہ مردانہ کمزوری کیا ہوتی ہے . عامل بنگالی باوا اور حکیم کالے خان میری زندگی میں کسی بھی ہیرو سے پہلے آئے، کیونکہ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل جو تھا. میں سوچتا تھا کہ دیوار پر لکھا ہے تو صحیح ہو گا تبھی تو کوئی مٹاتا نہیں. میں نے دادی کو کئی بار کہا کہ بنگالی باوا کے پاس چلتے ہیں ، آپ کی آنکھیں صحیح کروا لیتے ہیں، تو بے چاری حسرت سے ایک آہ بھر دیتی تھیں.
یونس بھائی مجھے آج بھی یاد ہیں. جب ضیا نے غیر جماعتی بلدیاتی انتخاب کراۓ تو یونس بھائی ہمارے حلقے سے کھڑے ہوئے. کیوں کھڑے ہوئے ؟ شاید اس لئے کہ لوگوں نے بانس پر چڑھا دیا، اور کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی. بہر حال ہمارے محلے کی دیواریں پوسٹر سے اٹ گئیں، یونس بھائی کے پوسٹر. پھر ان کا جلوس نکلا ، جی ہاں ، ان ہی کا جلوس نکلا اونٹ گاڑی پر. مجھے یاد ہے ہمارے پڑوسی یونس بھائی کے ساتھ اونٹ گاڑی پر سوار تھے اور نعرے لگ رہے تھے ‘آگے دیکھو یونس بھائی ، پیچھے دیکھو یونس بھائی ، اوپر دیکھو یونس بھائی ، نیچے دیکھو یونس بھائی ‘. میں نے پہلی دفع نوشتۂ دیوار کو ہار پہنے ، ہاتھ ہلاتے دیکھا، سمجھ آیا کہ ہوتے تو یہ انسان ہی ہیں. عامل بنگالی باوا کو دیکھنے کے اشتیاق میں اضافہ ہو گیا. برسوں بعد یونس بھائی سے بالمشافہ ملنے کا موقع ملا تو میں نے انھیں گلے لگا لیا. وہ تھوڑا بوکھلا گئے، اب ان کو کیا پتا کہ وہ ایک بچے کے لئے عوامی قوت کا استعارہ رہ چکے تھے. پھر ابّا نے بتایا کہ یونس بھائی ہار گئے، نیازی کونسلر بن گئے . نیازی سے بھی میں دیوار کے ذریعے سے واقف ہوا، لکھا ہوتا تھا کہ ‘آپ کے ووٹ کا صحیح حقدار’. پھر کسی نے ایک درخواست دے کر نیازی کے پاس بھیج دیا، پہلی بار ملا تو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا کہ یہ نام دیواروں پر بہت پڑھا تھا، ملے تو یہ بھی اپنے جیسا ہی انسان تھا.
دیواروں کا ایک رخ اور بھی تھا ، ضیا پوری آب و تاب سے دمک رہے تھے، تحریک براۓ بحالی جمہوریت کم از کم سندھ میں تو خاصی سرگرم تھی. دیواریں ان دیوانوں کا بھی محبوب ذریعہ اظہار تھیں. ایم آر ڈی ، یہ نام مجھے ازبر تھا. جام ساقی ، معراج محمد خان ، نصرت بھٹو اور پلیجو کے نام مجھے دیواروں سے ہی پتہ چلے. پھر اخباروں میں ان کی خبریں ڈھونڈ کر پڑھنے لگا. یہ کسی عجیب بات تھی کہ بھٹو کا نام نصاب اور ابلاغ سے غائب تھا، میرے جیسے بچے اس سے نا واقف تھے، مجھے مجیب سے ملنے میں ابھی کئی سال باقی تھے کیونکہ وہ دیواروں سے جا چکا تھا. انہی دیواروں سے مجھے قوم پرستی کا بھی پتہ چلا، ‘سندھو دیش مقدر آ ، جی ایم سید رهبر آ’، ‘خپل خاورہ ، خپل اختیار’ اور پھر اے پی ایم ایس او کا ‘کوٹہ سسٹم ختم کرو ‘. یہی دیواریں پڑھ کر میں نے والد سے پوچھا کہ یہ الطاف حسین کون ہے ؟ وہ پھر ہنس دیے ، میں نے پھر سوچا کہ یہ ہنسی کیسا جواب ہے ؟ پھر ضیا صاحب اللہ کو پیارے ہوئے اور بے نظیر واپس آ گئی، تیر کے نعرے بجنے ہی نہیں دیواروں پر دکھنے بھی لگے . آئی جی آئی بنی اور سائکل دیواروں پر دکھنے لگی. ایم آر ڈی غائب ہو گئی. سندھی شاگرد تحریک ، جساف ، جئے سندھ ترقی پسند ، مہاجر اتحاد تحریک، مہاجر قومی موومنٹ نظر آنے لگے.
اور لوگ بھی تھے، نواب مظفر حسین کبھی آزاد ہو جاتے تھے کبھی کسی جماعت میں ، ان کے ساتھ نوابزادہ راشد علی خان کے پوسٹر بھی لگتے تھے. نوابزادہ بعد میں نواب ہو گئے. ایک الیکشن میں میں نے ان کے ایک مخالف امیدوار کی کمپین میں حصّہ لیا تھا ، تب ایک پولیگ اسٹیشن پر ان کی زیارت ہوئی تھی، مسلم لیگ فنکشنل میں گئے پھر پاک سر زمین کے ہو گئے. اس وقت تک یہ دونوں ایم کیو ایم سے پہلے کے حیدرآباد کی نشانی تھے، ایم کیو ایم الیکشن میں نہ ہوتی تو یہ جیت جاتے تھے. آفتاب احمد شیخ کو بھی دیکھا بعد میں دیواروں پر ان کا نام پہلے پایا، جماعت کے غفور احمد کا بھی یہی قصّہ رہا، ان لوگوں سے ملا دیر سے مگر جانتا دیواروں کی نسبت سے تھا. ایک رشید بھیا بھی تھے جو بعد میں رشید احمد خان راجپوت ہوئے. پہلے خاں ، پھر خان خاں ، پھر خان خاناں ہو گئے. ان کو میں نے گنے کی مشین چلاتے بھی دیکھا اور ایک دن مئیر کے دفتر سے نکلتے بھی ، پیچھے پیچھے ڈپٹی کمشنر تھا اپنے منہ اور سوٹ سے پان کی پیک کے دھبے صاف کرتے.
دیواریں عجیب کہانیاں سناتی رہیں. یہ مزے کی بات تھی کہ عامل بنگالی باوا ابھی بھی اپنی جگہ تھا. ایک دن میں چند دوستوں کو لے کر اس کے پاس چلا گیا. قبرستان کے پاس پہاڑی کے ساتھ کچے قلعے کی آبادی میں اس کا ٹھکانہ تھا، ایک بوسیدہ سا کمرہ، ایک میز اور چند کرسیاں ، انہی میں سے ایک پر وہ خود بیٹھا تھا ، مدقوق سا انسان، آنکھیں بہت روشن تھیں، ذہانت کا پتہ دیتی تھیں اور اس کے چہرے اور جسم سے یکسر مختلف. جب بات کی تو پتہ چلا کہ کمبخت بنگالی بھی نہیں تھا، شاید بہاری ہو. پوچھنے لگا کہ کیا مسئلہ ہے، میں نے کہا کوئی نہیں بس ملنا تھا تو ڈر گیا. پوچھنے لگا کہ کہاں سے آئے ہیں، ہم حلیے سے خفیہ والے تو نہیں لگتے تھے مگر جب تک بھائی لوگ اپنا سکہ بٹھا چکے تھے. وہ سمجھا کسی شکار نے خدمات حاصل کر لی ہیں، بولا میرے پاس پیسے ویسے نہیں ہیں. ہم نے موج میں تھوڑا ڈرا دیا تو معلوم ہوا کہ جواری بھی ہے، جوئے میں ہارتا رہتا ہے اور سوچتا ہے ایک دن جیت کر سب چھوڑ کر سدھر جاۓ گا. میں بہت مایوس ہوا، اس سے پوچھا کہ یہ دیواروں پر کہانی کیوں لکھواتا ہے، تو بولا کہ وہ تو سرمایہ کاری ہے، اسی کی وجہ سے بزنس ملتا ہے. سچ پوچھیں تو اس دن سے دیواروں کا لکھا پڑھنا چھوڑ دیا.
پھر ایک دن آیا کہ مرتضیٰ بھٹو کو مار دیا گیا. اس دن میں پیپلز پارٹی شہید بھٹو کا کارکن بن گیا، ایک دن کا ایک بے نام کارکن جس نے دیواریں سیاہ کر دیں، غم و غصّے میں اور کچھ سوجھا ہی نہیں. مجھے یاد ہے کہ ایک پولیس والے نے مجھے روکنے کی کوشش کی، میں نے صرف اس کی طرف دیکھا تو وہ خاموشی سے پیچھے ہٹ گیا. اس دن مجھے ادراک ہوا کہ دیواریں محض لالچی اور موقع پرستوں کو ہی جگہ نہیں دیتیں بلکہ بے بس اور بے آواز کی آواز بھی بن جاتی ہیں.

50% LikesVS
50% Dislikes

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *