دو قومی نظریے کے حوالے سے برصغیر میں کئی آرا موجود ہیں. پہلا تو یہ کہ دونوں ملکوں یعنی پاکستان اور بھارت میں تقسیم اور دو قومی نظریے کی ترویج کی مکمل ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالی جاتی ہے، یعنی پاکستان میں ہندوؤں کو سازشی اور بد نیت قرار دیا جاتا ہے اور بھارت میں مسلمانوں کو. دوسرا نظریہ تقسیم کی ذمہ داری انگریزوں پر ڈال دیتا ہے. کچھ لوگ صرف مسلم لیگ یا صرف کانگریس کو الزام دیتے نظر آتے ہیں. یہ بڑی عجیب بات ہے کہ عام طور پر اس موضوع کو ایک فریق کی طرح دیکھا جاتا ہے اور دوسرے فریقوں پر ذمہ داری رکھ کر ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے جس میں ایک فریق مظلوم اور باقی سب ظالم بن جاتے ہیں. مگر کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ کیا دو قومی نظرہے کی ترویج صرف مسلمانوں نے کی ؟ یا محض ہندوؤں کے مکاری اور انگریزی سازشوں نے اس کی بنیاد رکھی ؟ یا یہ صرف ایک انگریزی سازش تھی ؟ کیا آج ہم تاریخ بیان کرتے وقت اس سماج کو جیسا سمجھتے ہیں وہ ویسا ہی تھا؟ کیا تقسیم کی تمام تر ذمّہ داری کسی ایک فریق پر ڈالی جا سکتی ہے؟اس مضمون میں مقصد دو قومی نظریے پر بات کرنا نہیں بلکہ یہ ہے کہ کس طرح ہندو سماج کی تحریکوں نے بھی وہ بیج بوئے جو تقسیم پر منتج ہوئے، ساتھ ساتھ مسلم تحریکوں کا بھی جائزہ لیا جاۓ گا. یہ صرف مسلم لیگ ہی نہیں تھی یا اس میں موجود جاگیردار اور متوسط طبقے کے غیر محفوظ عناصر ہی نہیں تھے مگر معاشرے میں موجود ہندو طبقات بھی مقابلے کی دوڑ میں لگے تھے اور اپنے مفادات کا تحفظ اور آگے بڑھنا چاہتے تھے اور دانستہ یا نادانستہ تقسیم کو بڑھاوا دیتے رہے.
اس بات تو سمجھنے کی ضرورت اس لئے ہے کہ خصوصا بھارت میں یہ بیانیہ بہت عام ہے کہ تقسیم مسلمانوں یا مسلم لیگ کی وجہ سے ہوئی، ورنہ تو اور تو سب بھائی چارے اور اتحاد کے قائل تھے. کیا ایسا ہی تھا؟ یہ سمجھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ آج کے بھارت اور پاکستان دونوں ہی میں انتہا پسندی اور فرقہ واریت عروج پر ہے، اس کی جڑیں تاریخ میں ہی ہیں اور تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے تاکہ اپنی مرضی کے نتائج اخذ کئے جا سکیں اور فرقہ پرستی کو مزید ہوا دی جا سکے.
آئیے بات شروع کرتے ہیں دو اشخاص اور ان کی آغاز کردہ تحریکوں سے؛ راجہ رام موہن رائے اور سید احمد خان . دو قومی نظریے کے حوالے سے سید احمد خان کو یہ الزام دیا جاتا ہے یا تعریف کی جاتی ہے (منحصر ہے کہ آپ کس طرف ہیں ) کہ انہوں نے فرقہ وارانہ سوچ کو تحریک دی اور مسلمانوں کے لئے ایک ایسا تعلیمی ادارہ بنایا جس نے آگے چل کر تحریک پاکستان میں نمایاں حصّہ لیا، یہ کہنے والے راجہ صاحب کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ جنہوں نے برہمو سماج نامی تحریک کی بنیاد رکھی ؟ راجہ صاحب ایک دوراندیش اور پڑھے لکھے فرد تھے، ایسا ہرگز نہیں تھا کہ وہ متعصب تھے. مغل دربار کا حصّہ رہے، مغل بادشاہ کی طرف سے انگلستان گئے، ایسٹ انڈیا کمپنی میں کام کیا. عیسائی مشنری سرگرمیاں ان کو پسند نہیں تھیں اور ہندو سماج کے زوال کا سبب وہ تعلیم سے دوری اور فرسودہ روایات کو سمجھتے تھے اس لئے ہندو کالج کی بنیاد رکھی اور پھر برہمو سماج تحریک کا حصّہ بنے جو کہ ایک احیا پرست تحریک تھی اور عوام کو متحرک کرنا چاہتی تھی کہ وہ نئے زمانے کا ساتھ دے سکیں، اور فرسودہ رسوم کو چھوڑ سکیں. راجہ صاحب نے ستی کی رسم کے خلاف بہت موثر تحریک چلائی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی حمایت سے ایسا کر سکے. سر سید کی عمر زیادہ نہیں ہو گی جب راجہ صاحب کا انتقال ہوا، مگر ہندو کالج اور برہمو سماج جب تک اچھی جڑیں پکڑ چکے تھے اور یہ ممکن نہیں کہ سر سید ان سے واقف نہ ہوں. سر سید بھی مغل دربار ، پھر ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر راج سے وابستہ رہے. انہوں نے کئی اداروں کی بنیاد رکھی جن میں سے ایک محمڈن اینگلو انڈین کالج تھا، جو بنیادی طور پر مسلمانوں میں جدید تعلیم کو ترویج دینا چاہتا تھا. ان دونوں تعلیمی اداروں یعنی ہندو کالج کلکتہ اور محمڈن اینگلو انڈین کالج علی گڑھ کو انگریز حاکموں کی حمایت اور سرپرستی حاصل تھی. انگریز کا منشا یہ تھا کہ ایسی افرادی قوت مہیا ہو سکے جو کاروبار ریاست میں مددگار ہو، مغربی طرز زندگی اور افکار سے واقف ہو اور انگریز سرکار کو سہارا دے سکے. یہ ایک حقیقت ہے کہ دونوں اداروں کی تشکیل میں انگریز سرکردہ رہے، ایک جگہ ہندو کی بات کرتے رہے تو دوسری جگہ مسلمانوں کی. یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علی گڑھ میں کالج کی تشکیل کے لئے ہندو اہل ثروت نے بھی حصّہ لیا اور ایسے ہی آگے جا کر مسلمان اہل ثروت نے ہندو یونیورسٹی بنارس کے لئے کیا.
یہ تو سمجھ آتا ہے کہ آج ہم ہندو مسلم طبقات کو جیسے دیکھتے ہیں انگریز سے پہلے اور ان کے ابتدائی دور کا ہندوستان ویسا نہیں تھا، فرقہ وارانہ امتیاز تو تھا مگر نفاق نہیں تھا، نفرت نہیں تھی. مگر مقابلہ شروع ہو رہا تھا اور ایسے طبقات وجود میں آ رہے تھے جن کو سرکاری نوکریاں اور کاروباری مواقع کی تلاش تھی اور جن کو فرقہ پرستی سہولت مہیا کرتی تھی. سوال یہ ہے کہ راجہ رام موہن راۓ یا سر سید یہ کیوں نہ دیکھ سکے کہ ان کی تحاریک فرقہ پرستی کو نمو دیں گی ؟ ان حضرات کی نیت اور ارادوں پر تو شک نہیں کیا جا سکتا، یہ قوم کے لئے ہی سوچ رہے تھے مگر یہ ایک مکمل قوم کے لئے کیوں نہ سوچ سکے جو فرقے سے ماورا ہو ؟ برہمو سماج کا مقصد سماج کی بہتری تھا تو مگر صرف ہندو سماج کی کیوں؟اسی طرح سر سید کی تحریک مسلمانوں پر کیوں مرکوز تھی ؟ یہ برہمو سماج یا مسلم سماج ہی کیوں بنا ؟ ہندی یا ہندوستانی سماج کیوں نہیں؟ قومیت کی تشکیل اگر ضروری تھی تو یہ قومیت فرقوں سے ماورا کیوں نہ ہو سکی؟
ایک وجہ تو شاید یہ ہو کہ برہمو سماج کی توجہ ان روایات اور رسومات پر تھی جو بنیادی طور پر ہندو فرقے یا افراد سے تعلق رکھتی تھی جیسے کہ ستی کی رسم، پھر ان کی تعلیمات بھی اسلامی یا عیسائی عقائد سے منسلک نہیں تھیں اور ہندو عقائد سے تعلق رکھتی تھیں جیسے ذات پات کے خلاف ہونا ، یا بت پرستی کے بجائے ایک ذات کی خدائی کو ماننا اور اسے کسی بھی عقیدے یا مذہب سے ماورا سمجھنا. برہمو سماج ایک ایسے تاریخی دور کو اہم مانتا ہے جسے ویدک دور کا نام دیا جاتا ہے کہ جب ہندو ایک خدا اور انسان کے تعلق کو مانتے تھے اور آگے آنے والے زمانے میں سماج نے بدعتیں اختیار کیں جن سے بت پرستی اور دیگر رسوم جیسے ستی پھیلیں اور ذات پات کے عقائد بھی انہی بدعتوں کا نتیجہ ہیں. یعنی ہندو مذھب انتہائی ارفع و اعلیٰ تھا جس میں برائیاں پیدا ہو گئیں. ایسے خیالات تھے جو مروجہ ہندو عقائد اور دیگر مذاہب جیسے اسلام یا عیسایت سے بھی مختلف تھے.
دیانندا سرسوتی نے کسی حد تک برہمو سماج ہی کی روایت کو آگے بڑھاتے آریا سماج کی بنیاد رکھی. آریا سماج بھی اس نظریے پر قائم تھا کہ ہندو معاشرہ ویدوں کے دور میں انتہائی ترقی پزیر اور معاشی اور معاشرتی طور پر طاقتور معاشرہ تھا، یہانتک کہ موجودہ دور میں موجود طاقتور تہذیبوں کی جڑیں بھی ویدوں کے دور میں ہیں اور دنیا کی بڑی زبانیں بھی سنسکرت سے نکلی ہیں اسی طرح دینیات اور سائنس نے بھی ہندوستان ہی سے جنم لیا ہے. ہندوستان میں موجود اخلاقی برائیاں مذھب سے دوری کا نتیجہ ہیں. سوامی دیانندا نے شدھی کی تحریک کا بھی آغاز کیا جس کا مقصد ان لوگوں کو دوبارہ ہندو بنانا تھا جو ہندو مذھب ترک کر کے کسی اور مذھب کو اختیار کر چکے تھے. شدھی کی روایت اصل میں ان اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے لئے تھی جو کسی وجہ سے دھرم بھرشٹ کر بیٹھتے تھے جیسے نچلی ذات میں شادی یا اچھوتوں سے تعلق ، ایسے لوگ شدھی کے راستے واپس اپنی ذات یا ورن میں آ جاتے تھے. سوامی دیانند نے اس رسم کو واپس ہندو بنانے کے لئے استعمال کیا. وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اس تحریک سے مسلمان یاعیسائی بھائی کوئی خطرہ نہ محسوس کریں کیونکہ یہ صرف ان ہندوؤں کے لئے ایک راستہ ہے جو دوبارہ ہندو ہونا چاہتے ہوں.
اس تحریک کا اثر سماج پر کیا ہوا ؟ کیا اس نے یا برہمو سماج یا سر سید کی تحریک نے فرقہ پرستی میں اضافہ نہ کیا ہوگا ؟ شدھی کے حوالے سے تو خاص طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگ ڈر گئے تھے، جس کا اظہار کئی لوگوں کی تقاریر اور اخباری مراسلات میں ملتا ہے. مشہور اداکار بلراج ساہنی کے بھائی بھیشم ساہنی اپنے بھائی پر لکھی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ان کے والد ہندوستان میں موجود اخلاقی برائیوں کا ذمہ دار مسلمانوں کو سمجھتے تھے اور آریا سماج کے حامی تھے. مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے کاروباری تعلقات زیادہ تر مسلمانوں سے تھے ، ان کی دعوتیں بھی ہوتی تھیں جن میں گوشت بھی پکتا تھا. یہ صرف ایک مثال ہے کہ کیسے فرقہ پرستی اپنی جڑیں بناتی ہے حالانکہ اس کو کوئی تک نہیں بنتی، انسان اپنی سرشت میں غیر فرقہ پرست ہے مگر اپنی خود غرضی میں کیا سے کیا ہو جاتا ہے.
مسلمان طبقات میں انگریزی حکومت کے حوالے سے سب سے زیادہ تشویشناک یہ امر رہا کہ آیا ہندوستان دارالامن ہے کہ دار الحرب ؟ کچھ علماء کا خیال یہ تھا کہ چونکہ مسلمانوں کو اپنے شرعی امور کی ادائگی میں آزادی حاصل ہے اس لئے یہ ملک انگریز کے تحت بھی دارالامن ہے. ایسے علماء میں احمد رضا بریلوی کا نام لیا جا سکتا ہے. احمد رضا خان بریلوی یا تحریک اہل سنت والجماعت کے بانیوں میں سے ہیں. یہ تحریک دیوبندی تحریک کی مخالف تھی. دیو بندی تحریک کی جڑیں بغاوت ١٨٥٧ سے جڑی ہیں جب شکست کے بعد علماء نے اس بات پر زور دیا کہ بڑھتے ہوئے انگریزی غلبے کا علاج یہ ہے کہ مسلمان خود کو اسلامی علوم اور تعلیم تک محدود کریں اور ایک باقائدہ نصاب تشکیل دیا گیا جسے درس نظامی کہا جاتا ہے. دیوبندی بڑی حد تک برہمو سماج کے ہم عصر تھی، اس کے بانیوں میں قاسم نانوتوی اور علماء فرنگی محل شامل تھے. ان دونوں تحاریک نے مسابقے کی ایک فضا پیدا کی جو آج تک وجود رکھتی ہے اور ہندوستانی مسلمانوں میں آپس کی فرقہ پرستی میں اضافہ کیا. اور ایک مسلم شناخت کی بھی ترویج کری جو ہندو سے الگ تھی، اس لئے کہ یہاں کلچر اور تہذیب کو شمار ہی نہیں کیا جا رہا تھا. یہی امر آریا سماج یا برہمو سماج پر بھی حاوی تھا.
( جاری ہے )

50% LikesVS
50% Dislikes

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *