Ethics

یہ ایک عمومی مشاہدہ ہے اور بیشتر لوگ اس سے اتفاق کریں گے کہ پاکستان میں معاشرے میں اخلاقی تنزلی میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے. جھوٹ ، مکر ، چوری چکاری، غلط بیانی ، دھوکہ ، وعدہ فراموشی ، خیانت ، بد عنوانی ، رشوت ، جنسی بے راہروی ، کونسی اخلاقی برائی نہیں ہے کہ جو روز مرّہ زندگی میں دکھائی نہ دے. اور حال ہی میں ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے کہ سیاست دانوں اور نامور شخصیات کی محفوظ کی گئی وڈیو اور آڈیو انٹرنیٹ پر پھیلا دی جاتی ہیں، ان میں بیشتر اخلاق باختہ اور جنسی وارداتوں کا ثبوت ہیں. معاشرے میں اس حوالے سے جو رد عمل سامنے آتا ہے وہ بہت دلچسپ ہے اور مزید بحث کا متقاضی ہے کہ ایسا کیوں ہے، اخلاقیات کا پیداواری تعلقات اور معاشرے سے کیا تعلق ہے اور یہی اس مضمون کا موضوع ہے.
بہت سے لوگ یہ کہتے ملتے ہیں کہ مغرب کی اخلاقیات بہت بلند ہیں اور یہ کہ انہوں نے ہماری تقلید کی ہے اور ہمارے اسلاف اور مذہب کی روایت کو اپنا لیا ہے جب کہ ہم اس سے دور ہو گئے ہیں، اقبال سے لے کر اوریا مقبول جان سب یہی کہتے نظر آتے ہیں. پرویز مشرف اور عمران خان صاحب جیسے اور کئی لوگ تو یہ پرچار بھی کرتے ہیں کہ اس اخلاقی کجی کی وجہ سے یہ قوم اس قابل نہیں کہ جمہوریت سے مستفید ہو کیونکہ ہم اس اخلاقی سطح اور دیانت سے دور ہیں کہ سچ اور راستی پر رہیں اور ہم پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا. کیا مغرب میں صرف اخلاقی معیار ہی موجود ہے ؟ کیا عوامل ہیں کہ ان کا اخلاقی معیار بلند ہوا ہے ؟ کیا انفرادی کردار اس کا باعث ہے ؟ یا تعلیم یا لوگوں کا ایک دوسرے پر اثر ؟ مغربی معاشرے کی اقدار بنی کیسے ہیں؟ وہاں جھوٹ بولنا برا سمجھا جاتا ہے، رشوت سے نفرت ہے (ہمارے ہاں تو عالم بھی یہ کہتے ملتے ہیں کہ کام جائز ہو تو رشوت دے دو ) ، صفائی کا خیال رکھتے ہیں ، دھوکہ عام نہیں ہے، اور بہت سی اخلاقی خوبیاں ہیں. ہاں یہ ایک اعتراض ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ جنسی بے راہروی ہے، لیکن مغرب میں جو جنسی تعلقات کے ضوابط ہیں اسے بھی ہم سمجھنے سے قاصر ہیں، ان میں بھی کچھ معاشرتی قواعد ہیں.
سوال یہ ہے کہ کیا مغرب ازل سے ایسا ہی ہے ؟ جب بھی ہم مغرب کی اقدار کی بات کرتے ہیں یا صنعتی ترقی یا انسانی حقوق کی فراہمی ، تو ہم ان کی تاریخ کو نظر انداز کیسے کر دیتے ہیں؟ مغرب صدیوں تک جاگیرداروں اور چرچ کی مکمل اجارہ داری تلے رہا ہے، کچھ لوگ اس دور کو تاریک دور بھی کہتے ہیں. نشاط ثانیہ کا زمانہ کوئی پندھرویں صدی سے شروع ہوتا ہے جب صنعتی ترقی اور تجارت شہریوں کو اس قابل کر دیتی ہے کہ بادشاہ، چرچ اور جاگیرداروں سے حقوق چین سکیں اور جمہوری قومی ریاستوں کی بنیاد رکھ سکیں اور ایسا زیادہ تر جنگوں اور انقلابات کے بعد ہو سکا، انقلاب فرانس اس سلسلے میں انتہائی اہم ہے. ہمارے لئے یہ اہم ہے کہ ہم صنعت ، تجارت، جمہوریت اور اخلاقیات کے باہمی تعلق کو سمجھیں اور کسی بھی معاشرے کا جائزہ لے سکیں.
مغرب میں عوام اخلاقی معیار میں اضافے کا سبب جاگیرداری سے نجات، صنعت کاری، سرمایہ داری ، معاشی ترقی، منڈی کا جبر، سیاست، تعلیم اور جمہوریت ہیں. جیسے جیسے صنعت و تجارت میں اضافہ ہوا ، تاجروں کی قوت بڑھی اور سرمایہ دار طبقے کی تشکیل ہوئی ساتھ ہی محنت کش طبقے میں بھی اضافہ ہوا اور شہر پھیلے، صنعتیں بڑھیں اور کاروبار پھیلے تو تعلیم یافتہ لوگوں اور افرادی قوت کی ضرورت بڑھی نتیجے میں تعلیم پھیلی اور عورتیں گھروں سے نکلیں. جمہوریت اور معاشی استحکام نے امن و امان کی صورت کو بہتر کیا، مزدور تحریکیں اس طرح بار آور ثابت ہوئیں کہ نچلے طبقات کو حکومت اور انتظامیہ میں شمولیت ملی، زیادہ تر مغربی ممالک میں مزدوروں کی یونین ، سیاسی تنظیمیں اور اس طرح سیاست میں باقائدہ شمولیت ہے. تعلیم اور صحت کی سہولیات عام آدمی کو میسر ہیں. تو یہ بات واضح ہے کہ مغرب میں انسانی اقدار میں بہتری جاگیرداری کی پسپائی اور صنعتی معاشرے کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ ہوئی. مغرب میں جاگیرداری دور عام آدمی کے لئے اتنا ہی مشکل تھا جتنا کہ آج پاکستان جیسے ملکوں میں ہے، ابتدائی صنعتی دور بھی کچھ اچھا نہیں تھا بلکہ سرمایہ دار اور آجر محنت کشوں کا بدترین استحصال کرتے رہے. اس سلسلے میں ایک بہترین مثال چارلس ڈکنز کے ناولوں سے دی جا سکتی ہے جو اس وقت کے حالات کی اچھی عکاسی کرتے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ اس وقت انسانی کردار اور اخلاق کی حالت بھی سمجھی جا سکتی ہے اور اس میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ہمیں وہی اخلاقی پستی، بد کرداری، دھوکہ دہی ، جھوٹ ، مکر اور ظلم اپنے آج میں ملتی ہے.
جاگیرداری ایک لفظ مگر پورا نظام ، سوچ، عمل بشمول متوسط طبقے کے جو ان کا پٹھو ہے اور ان کی نافذ کردہ اقدار کو دین ، روایت اور احسن اخلاقیات سمجھتا ہے. ہمارے علما اسی جاگیرداری اخلاقیات کی تبلیغ کرتے رہے ہیں، ہمارے پشتون اور بلوچ قبائلی بھی اسی نظام کا ایک حصّہ ہیں ، وہاں قبائلی اور بدوی روایات بھی موجود ہیں، بہرحال رئیس اور سردار بڑی زمینوں کے مالک ہی ہیں. ثبوت کے طور پر غریب اور عورت ہر دو کے ساتھ ہمارا سلوک دیکھ لیں، کچھ دور جانے کی ضرورت نہیں. اور مذہب کو بیچ میں نہ لائیں تو بہتر کہ مذہب کا اس طبقاتی نظام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ، ہمارے پیداواری رشتے اور نظام بدل جائیں تو بھی مذہب وہی رہے گا ، جیسا کہ یورپ میں ہوا ، جاگیرداری لد گئی ، عیسائیت آج بھی ہے ، کبھی جاگیرداری کو عین مذہب کہتے تھے وہ لوگ اور اس کی اخلاقیات کو مذہبی ، اب ایسا نہیں ہے . ہمارے ہاں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک بین الا قوامی سرمایہ داری نظام کا حصّہ ہے لہٰذا جاگیرداری معاشرہ نہیں ہے . کیا حقیقت یہی ہے؟ ہمارا پیداواری نظام کیا ہے ؟ کیا صنعتی اور سرمایہ داری نظام مکمل طور پر نافذ ہے؟ کیا جاگیرداری کا خاتمہ ہو چکا ہے؟ کچھ حضرات کی رائے میں یہ جاگیرداری یا فیوڈلزم نہیں ہے کیونکہ یورپ کا جاگیردار زیادہ بڑا اور طاقتور ہوتا تھا. چلیں اس نظام کا کوئی اور نام رکھ لیں جیسے’ڈھگر ڈھگر’، تو جناب یہ جاگیرداری نہیں ‘ڈھگر ڈھگر’ ہے ، خوش ؟ نام سے اس نظام کو کیا فرق پڑا ؟ واشنگٹن پوسٹ کی دو ہزار تین کی ایک رپورٹ ہے(1) ( پرانی ہے مگر کوئی تبدیلی نہیں آئی تو اتنی پرانی بھی نہیں) ، یہ کہتا ہے کہ پاکستان کی چوالیس فی صد زرعی زمین دو فی صد افراد کی ملکیت میں ہے. اس رپورٹ میں تیس ہزار ایکڑ زمین ایک خاندان کی ملکیت بتائی گئی ہے. یہ بھی مزے کی بات ہے کہ جاگیرداری کو خطرہ وراثتی نظام کو بتایا گیا ہے کہ جس میں زمین ایک نسل سے دوسری میں تقسیم در تقسیم ہو رہی ہے، گویا جاگیرداری اگلے چند سو سال میں اپنی موت مر جائے گی، جب تک سب انتظار کریں اور رلتے رہیں. رلنے کا مطلب جاننا ہو تو سندھ کے کسی گاؤں کا دورہ کر کے دیکھ لیں اگر آپ کو اجازت مل جاۓ اور دیکھیں کہ وہاں محنت کشوں کو تعلیم ، صحت ، صفائی ، غذا ، پانی اور دیگر بنیادی سہولیات میسر ہیں کہ نہیں، اگر ہیں تو کیوں اور نہیں تو کیوں نہیں ؟
بہر حال ہمارا موضوع اخلاقیات ہے. جاگیرداری یا ‘ڈھگر ڈھگر’ معاشرہ ایک پدری معاشرہ ہے جس میں درجہ بدرجہ طاقت کی تقسیم ہوتی ہے، ہندوستانی بادشاہی نظام میں طاقت کا آغاز بادشاہ سے ہوتا تھا، یہ درجہ پھر انگریز راج نے حاصل کیا اور آج پاکستان میں یہ درجہ اس مقتدرہ کو حاصل ہے جو فوج ، بیوروکریسی، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا مرکب ہے اور ریاست اس کی پشت پناہ ہے اور ریاستی ادارے اس مقصد کے لئے کام آتے ہیں. اس نظام میں جاگیردار یا اس کے خاندان کو قوت اس کی وفاداری کے صلے میں ملتی ہے. موجودہ دور میں جمہوریت یا آمریت دونوں میں ہی جاگیردار ریاست کو اس طرح سے قوت دیتے ہیں کہ عوام کو قابو میں رکھتے ہیں، یاد رکھیے کہ ہمارے عوام کی اکثریت دیہات میں رہتی ہے اور ان کے مسائل کا ذکر اور فکر ابلاغ میں بہت کم نظر آتا ہے، یہ ریاست اور جاگیرداری نظام کی کامیابی کا ثبوت ہے. جاگیرداری اخلاقیات میں ہر طاقتور کسی اور طاقتور کو جوابدہ ہے، یہاں تک کہ بالائی سطح پر اشرافیہ بین الا قوامی سرمایہ داری اور بیرونی طاقتوں کی غلام ہے، یہ اس لئے ہے کہ مقتدرہ عوام کو جوابدہ نہیں ہے جو کہ صحیح جمہوریت کی بنیاد ہے . اس پدرانہ معاشرے میں خوف، خوشامد ، جھوٹ اور مکر عام ہوتے ہیں کہ آقا کو خوش رکھنا مقدم ہے ، چاہے وہ کسی طرح سے ہو . ایسے میں سچ اور دیانت کو کون پسند کرے گا؟ یہاں طاقتور کی شخصیت اہمیت کی حامل ہوتی ہے، جو آقا کو پسند ہو وہی روایت بن جاتی ہے ، دیکھ لیں کہ طاقتور ، ظالم اور عیاش افراد اور ادارے ایسے معاشرے میں خوب مزے کرتے ہیں کہ کوئی ان کے خلاف کھڑا نہیں ہو سکتا، اور ایسے افراد کے روا کردہ ظلم اور زیادتی سے صرف نظر کیا جاتا ہے. طاقتور قتل کر کے بھی بچ جاتے ہیں اور ریاست بے بس اور اپاہج نظر آتی ہے. کمزور ہر طرح سے ذلیل و خوار ہوتے ہیں. حمید اختر صاحب کی کتاب کال کوٹھری میں ایسے افراد کا ذکر ہے جو بے گناہ صرف اس لئے گرفتار کر کے جیل بھیج دیے گئے کہ گنتی پوری کرنی تھی ، جن کی ضمانت دینے والا کوئی نہ تھا تو وہ قید و مشقت کی صعوبت بھگتتے رہے، آج تک کچھ نہیں بدلا اور وہی حال ہے.
اچھا کیا شہروں میں احوال مختلف ہے؟ کیونکہ شہر میں تو مزدور ، آجر ، تاجر، صنعت کار، دفتری نوکر سبھی ہیں ، کیا کچھ بدلا ہے؟ جواب یہ ہے کہ بہت زیادہ نہیں کیونکہ جاگیرداری ( اور جن کو یہ لفظ برا لگتا ہے ان کے لئے ڈھگر ڈھگر ) روایات اور رویے شہروں میں بھی حاوی ہیں. ہمارے متوسط طبقے کی اخلاقیات جاگیرداری یا پدرانہ اخلاقیات ہی ہے جہاں طاقتور کے احترام کیا جاتا ہے چاہے وہ مجرم ہی کیوں نہ ہو. رشوت ، سفارش ، خوشامد ، جھوٹ ، مکر ، فریب اس معاشرے کی نمایاں خصوصیات ہیں جو کسی درجہ دیہات سے مختلف نہیں. ‘ایسا تھا میرا کراچی ‘ محمد سعید جاوید کی کتاب ہے جو تقسیم کے بعد کے کراچی پر مشاہداتی تحریر ہے. مصنف اس معاشرے کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں ، پھر بھی پولس والوں اور پاسپورٹ آفس کی کرپشن کا ذکر کرتے ہیں، یہ لکھتے ہیں کہ لوگ باگ سائکل کے چالان سے بچنے کے لئے رشوت دیتے تھے. آج کی تو بات ہی کیا ہے، اہل علم رشوت کو جائز قرار دیتے ہیں اگر جائز کام کے لئے دی جائے ، کوئی پوچھے کہ کام جائز کسے رہا اگر کوئی پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے رشوت نہ دے سکے اور آپ دے دیں ؟ کسی کا حق مارا گیا کہ نہیں ؟ اور اس کا اثر معاشرے پر کیا ہوگا ؟ کمزور اور غریب کس طرح گزارہ کرے گا ؟ طاقتور کیا نہیں کرے گا؟
اب دیکھیں کہ جاگیرداری اخلاقیات کس طرح معاشرے میں سرائیت کیے ہوئے ہے. یہ جملہ کہ ‘مجھے جانتے نہیں میں کون ہوں؟’ اکثر سنا جاتا ہے، یہ جملہ عکاس ہے کہ تعلقات حقوق سے زیادہ اہم ہیں. آپ اگر اثرو رسوخ رکھتے ہیں تو آپ کے پوبارہ ہیں، جیسے کہ کسی زمانے میں بادشاہ کا سالا بادشاہ ہوتا تھا، ہمارے ارد گرد نہ جانے کتنے ایسے سالے گھومتے ہیں جو کسی چھوٹے موٹے بادشاہ کی رشتہ داری یا پشت پناہی پر اتراتے ہیں، اس کے بر عکس ایک صنعتی جمہوری معاشرے جیسا کہ مغرب میں فرد کے حقوق کی اہمیت ہے کسی کا سالا ہونے کی نہیں. اخلاقیات کا تعلق پیداواری تعلقات اور حقوق کی پاسداری سے ہے. ہمارے ہاں مذہبی تبلیغی ایک زمانے سے مذہبی اور اخلاقی سدھار کی کوششیں کرتے چلے آ رہے ہیں جیسا کہ تبلیغی جماعت کو سو سال ہونے کو آ رہے ہیں، باوجود تمام سرگرمیوں اور تبلیغی ساتھیوں یا کارکنوں میں اضافے کے معاشرے میں کیا فرق پڑا؟ بلکہ حالات اور خراب ہو گئے ہیں، وجہ یہ ہے کہ ایسی تمام تبلیغی کاوشیں جاگیرداری اور جاگیرداری اخلاقیات کو سہارا دیتی ہیں نہ کہ اس کی مذمت اور اختلاف پر کوئی کام. نتیجہ یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا بلکہ بد تر ہوتا چلا جا رہا ہے. اس طرح کی جماعتیں اور افراد خود ایک اثر و رسوخ رکھنے لگے ہیں جو عام آدمی کو حاصل نہیں سو انہیں بھی یہ نظام راس انے لگا ہے اور ایسی جماعتیں ایک کلٹ کا روپ دھار لیتی ہیں جس میں داخل ہونے والوں کو جماعتی نظم کی پابندی کرنی ہوتی ہے ، اپنے ساتھیوں کو تحفظ دینا ہوتا ہے اور بدلے میں ایک تحفظ اور شناخت ملتی ہے، اس میں اخلاقیات کی اہمیت اتنی ہے کہ جتنی ضرورت ہو، جماعت غلط اور صحیح سے اوپر ہوتی ہے سو ضمیر اور سچائی پیچھے رہتے ہیں. یہ ایک اچھی مثال ہے کہ جو معاشرے میں ہر اس طرح کے گروہ میں نظر آئے گی جو عام آدمی سے زیادہ آسائشات، استحقاق اور حقوق کا حامل ہو ، اب یہ جاگیردار ہوں سرمایہ دار یا فوج یا بیوروکریٹ یا سیاستدان ، سب ‘مجھے جانتے نہیں میں کون ہوں؟ کہتے سنائی دیں گے. یہاں شہریت کی اہمیت نہیں بلکہ آپ کے معاشی اور سماجی رتبے کی ہے کہ آپ کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں.
عام آدمی خصوصی طور پر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد جو کہ پڑھے لکھے اور عزائم پسند کی بھی پوری کوشش یہی رہتی ہے کہ وہ بھی کسی طرح ان آسائش اور استحقاق یافتہ طبقات میں شامل ہو سکے. اس کوشش یا عزم کی راہ میں رکاوٹ اس وقت آتی ہے جب مراعات یافتہ طبقات کی اخلاقی بدعنوانی اہل افراد کا راستہ روکتی ہے چناچہ اس طبقے میں سب سے زیادہ شور بدعنوانی کے خلاف ہوتا ہے، اس کے علاوہ کسی اخلاقی برائی اور طبقاتی نا ہمواری کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں. تحریک انصاف اس طبقے کی خواہشات کی ایک اچھی عکاس ہے کہ جو صرف بدعنوانی یا کرپشن کے خلاف ہے، ان کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ اس کے پیچھے کیا ہے اور عام محنت کش ، کسان اور مزدور کا کیا حال ہے، یہ بھی جاگیرداری اور اس کے ساتھ جڑی سرمایہ داری کے خلاف نہیں مگر اخلاقی بہتری چاہتے ہیں. میر کے بقول جس عطار کے لونڈے کے سبب بیمار ہیں اسی سے دوا چاہتے ہیں. کسی اور سیاسی جماعت بشمول پیپلز پارٹی کو دیکھ لیں تو کم و بیش یہی صورت حال ہے کہ جاگیردار پورے زور شور سے ان کا حصّہ ہیں سو جاگیرداری کےخلاف کوئی بات بھی نہیں کرتا نا کسی طرح کی زرعی اصلاحات کی بات ہوتی ہے. زرعی پیداوار پر ٹیکس سے ہونے والی آمدنی ہماری ریاست کے کل ریونیو کا معمولی حصّہ ہے جبکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے. ہمارے کسان مزدوروں کو ملنے والے حقوق سے محروم ہیں بلکہ محنت کشوں میں شمار ہی نہیں ہوتے. ہمارے رویوں میں پدرانہ سماج کی تمام روایتیں موجود ہیں جو سیاست میں بھی نظر آتی ہیں. یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے تو بڑے اعتماد سے کہا کہ طلبہ تنظیموں پر لگی پابندی اٹھا دیں گے ، اب پیپلز پارٹی ایک بار پھر حکومت میں ہے ، کیا ہوا ؟ طلبہ جاگیرداری اور اشرافیہ کے لئے ایک مسئلہ تھے، شور کرتے تھے اور طاقت کے استعمال پر سوال کرتے تھے لہذا یہ سب کے حق میں ہے کہ ان کو خاموش ہی رکھا جائے، سو ہیں، اب تو کوئی کسی کو یاد بھی نہیں دلاتا. یہ ایسا ہی ہے کہ ہم کو گھر پر یہ کہا جاتا ہے کہ باپ کے آگے نظر نہ اٹھاؤ، ادب کرو اور سوال نہ کرو، جو باپ کا ایک گھرانے میں کردار ہے وہی ایک جاگیردار کا اور ایسا ہی آپ کو دیگر اداروں میں دکھائی دے گا، استاد کا ادب ،یا کسی افسر کا ادب ، کسی دفتر میں کسی بڑے صاحب کی عزت کیسے ہوتی ہے اور جب یہ ریٹائر ہو جاتے ہیں یا عہدے پر نہیں رہتے تو کیا ہوتا ہے؟ باپ بوڑھا ہو جاۓ تو کیا ہوتا ہے ؟ جاگیردار کا کام اس کے بیٹے سنبھال لیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ ان سب افراد کے حوالے سے روا اخلاقی معیار ان کے طاقت کھوتے ہی بدل جاتے ہیں. ایوب خان یا یحییٰ خان کو جب گھر بھیج دیا گیا تو ان کا کیا ہوا؟ کسی کو خبر بھی ہے ؟ یہ اپنے وقت کے مرد آہن تھے، جو طاقت کھوتے ہی گمنام ہو گئے.
خوشامد اور جھوٹ بھی اسی طرح اس پدری جاگیرداری نظام کا حصّہ ہیں. بڑے کی خوشنودی اس لئے بے حد ضروری ہے کہ وہ آپ کی جگہ کسی اور کو دے سکتا ہے، آپ کا تمام تر انحصار اس پر ہے کہ آپ سے بڑا آپ سے خوش رہے نہ کہ آپ کی لیاقت اور صلاحیت، وقت پڑے تو موروثی جائداد اور طاقت بھی بے اثر ہو سکتی ہے اور کچھ نہیں تو نا پسندیدہ شخص سازش اور قتل و غارت کا نشانہ بن سکتا ہے. مغلوں کے دور میں تو منصب داروں کو مستقل جائداد نہیں دیتے تھے، جب مغل کمزور پڑے تو لوگوں نے من مانی شروع کر دی، انگریزوں نے آ کر وفاداری کے بدلے موروثی جائداد کو فروغ دیا اور پاکستان کو یہ جاگیردار تحفے میں مل گئے یا یوں کہیں کہ جاگیرداروں کو پاکستان تحفے میں مل گیا. ہمارے معاشرے کی یہ بھی جاگیرداری خصوصیت ہے کہ یہاں انا اور غیرت کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ، سچ پیچھے رہ جاتا ہے، باپ دادا کے عقائد کتنے فرسودہ کیوں نہ ہوں اہم ہیں، آپ کے رہنما کچھ کرتے رہیں یہ مشکل ہے کہ ان سے سوال ہو، یہ جاگیرداری پدری نظام ہی کا شاخصانہ ہے. کسی کا غلط کام بھی سامنے آ جائے تو اس کے حامی اس کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں ، کیوں؟ مغرب میں کردار کو بہت اہمیت حاصل ہے، جس کا کردار مشکوک ہو وہ کبھی عوامی زندگی اور رہنمائی کی طرف نہیں آتا، ہمارے ہاں اس کی کوئی اہمیت نہیں اس لئے کہ جاگیردار کے لئے برا، ظالم، عیاش ہونا فائدہ مند ہے کہ لوگوں کو قابو رکھنے میں مدد ملتی ہے، یہی قبولیت ہماری رگ و پے میں بسی ہے. ہم سوچتے تک نہیں کہ ایک گناہ گار ، عیاش ، راشی ، ظالم، خود غرض اور خود پرست شخص اس قابل نہیں کہ قومی رہنمائی کر سکے، جو کہیں بھی کبھی بھی غلطی کر سکتا ہو اس کو قوم کی باگ دوڑ دے دیں؟ آپ دیکھیں گے کہ مغرب میں کسی بھی طرح عوامی عہدے سنبھالنے والوں کی اخلاقی کجی (اگر اس کا ثبوت سامنے آ جاۓ ) کو برداشت نہیں کیا جاتا ، ایسی مثالیں ہیں کہ ایک شراب کی بوتل تحفے میں لینے پر کسی رہنما یا افسر کو عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے. جاگیرداری سماج میں تو رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں چلتا. ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ گناہوں پر پردہ ڈالو، کسی کی ذاتی زندگی کا سوال ہو تو اچھی بات ہے مگر قومی انتظامی معاملات سنبھالنے والوں ( چاہے سرکاری ملازم ہو کہ سیاست دان یا سماجی رہنما ) کے گناہوں پر کیسے پردہ ڈال دیں ؟ کیا مسئلہ صرف ان کی ذات کا ہے ؟ نہیں ، ایک اخلاقی کرپٹ انسان کیسے رہنمائی کا اہل ہو سکتا ہے؟ اس پر بھروسہ کیسے کریں ؟ اس کے فیصلوں کی سچائی کیسے مانیں جو جھوٹا، چور یا اخلاق باختہ ہو ؟ یہ جاگیرداری سماج ہی میں ممکن ہے اور ہو رہا ہے، سب چل رہا ہے. کسی کی وڈیو یا کوئی دستاویز سامنے آئے تو اس کے حامی اسے جعلی بتانے میں جتنا زور اور توانائی لگاتے ہیں اس سے کم میں اس مواد کی جانچ کر کے اسے جعلی ثابت کیا جا سکتا ہے ، مگر ایسا مطالبہ تک کہیں سے سامنے نہیں آتا، کیوں؟ شاید اس لئے کہ سب کو پتہ ہو کہ ایسا مواد اصلی ہے. یہ ایک حیران کن روایت ہے کہ اخبارات اور میڈیا میں رہنماؤں پر الزام لگتے رہتے ہیں مگر ان کی تردید نہیں کی جاتی اور ایسی خبریں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں. یہ ہماری سیاسی روایات اور اخلاقی معیار کی پستی کا ایک ثبوت ہے کہ کوئی بھی کچھ بھی کر کر نہ صرف بچ سکتا ہے بلکہ عظمت، سچائی اور پاکیزگی کا دعویٰ بھی کر سکتا ہے. ویسے کوئی عالم روشنی ڈالیں گے کہ اگر کوئی نا قابل تردید ویڈیو اور آڈیو ثبوت موجود ہو تو زنا ثابت ہوتا ہے کہ نہیں اور اس کی سزا کیا سنگسار ہی ہے یا آپ الیکشن جیت کر وزیر اعظم بن سکتے ہیں ؟ یا آڑھے ٹیڑھے ثبوت پر سنگسار صرف غریب کو کیا جاتا ہے ؟
مکمل شان و شوکت، اعتماد اور عزم کے ساتھ اپنی اور اپنے رہنما کی غلطیوں کا دفع جاگیرداری روایت کا حصّہ ہے جو ہم پورے ذوق و شوق سے نبھا رہے ہیں. ‘کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے’ قسم کے جملے یا ‘ہمیں منزل نہیں رہنما چاہئے’ قسم کے نعرے لامشروط وفاداری اور احمقانہ حد تک اندھے اعتماد کا مظاہرہ ہے جس کی جڑیں بھی جاگیرداری ہی میں ہیں، جاگیردار جو کہے وہ سننا اور ماننا لازم ہے. ہمارے گاؤں دیہاتوں میں اشراف کی اتنی عزت کی جاتی ہے جو شاید صنعتی معاشرے میں کسی کی سمجھ ہی نہ آ سکے. یہی رویہ شہروں میں بھی ہے. تضحیک آمیز حد تک چھوت چھات اور طبقاتی تعصب عام ہے. فرد کے حقوق اس کا سماجی اور معاشی درجہ طے کرتا ہے. اگر آپ مراعات یافتہ طبقات میں نہیں ہیں تو بھول جائیں کہ کوئی حق رکھتے ہیں، زندگی غریبوں کے لئے صرف ذلت اور بے کسی ہے، جنگل کا قانون ہے اور چھین لینے والا بہتر ہے. یہ تعجب کی بات نہیں کہ ریاست طاقتور کے آگے بے بد ہے اور قوانین ایسے ہیں کہ طاقتور اور با رسوخ کچھ بھی کر کے بچ جاتے ہیں چاہے کسی کا خون ہی کیوں نہ ہو. سیاسی جماعتیں میاں مٹھو اور جام اویس جیسے لوگوں کو ساتھ رکھتی ہیں جن پر واضح طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جرائم کے الزام ہیں . میاں مٹھو عوامی دباؤ پر پیپلز پارٹی سے نکالے گئے تو ان کو تحریک انصاف میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی جو عوامی دباؤ پر واپس لی گئی (2). جام اویس ، ناظم جوکھیو کے قتل سے آج تک مستقل پیپلز پارٹی کے رکن اور ممبر صوبائی اسمبلی ہیں، جو قتل کے کیس سے اس بنا پر رہا ہوئے کہ مقتول کے خاندان نے معاف کر دیا (3) اور مبینہ طور پر تیس لاکھ روپے مقتول کے بچوں کے اخراجات کے لئے دیے گئے. واہ کیا قانون اور ریاست کہ غریب ایسا جرم کرے تو سزا پاۓ کہ پیسہ نہ دے سکے اور امیر جان چھڑا لے اور آزاد بمع تمام استحقاق کے ساتھ رہے. سیاسی جماعت جیسے پییپلز پارٹی بھی قابل ستائش کہ اگر مجرم (اگر مقتول کے خاندان والے نہ چھوڑتے تو مجرم ہی تھا ) کو ساتھ لیے بیٹھے ہیں اس لئے کہ سیاسی رسوخ رکھتا ہے اور طاقتور ہے، اس سے بہتر جاگیرداری کی قوت اور کامیابی اور اس سے منسلک معاشرے کی اخلاقی پستی کی عمدہ مثال اور کیا ہوگی ؟ اچھی بات یہ ہے کہ یہ ملک کی سب سے روشن خیال اور جمہوری پارٹی ہے ، اور مزید اچھی بات ہے کہ پارٹی کے سب کارکن سکون سے ہیں اور کوئی کچھ نہیں بولتا ، یہ ہے ہماری جمہوریت اور سیاست کی امید اور اخلاقی معیار .
اس ملک میں جو بھی محض اخلاقی کجی اور پستی کا رونا روتا ہے اور صرف اخلاقی بہتری کی خواھش رکھتا ہے وہ غلطی پر ہے کہ جب تک ان خامیوں کی مادی وجوہات کو نہ ڈھونڈا جائے اور ان کے خلاف منظم سیاسی تحریک نہ چلائی جائے کچھ نہیں سنبھلے گا. آئینی ، انتظامی، معاشرتی، معاشی، پیداواری اور تعلیمی اصلاحات کے بغیر صرف یہ سوچنا کہ لوگ بدعنوانی سے باز آ جائیں گے دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں.

نوٹ : اس مضمون میں شامل حوالہ جات اکیس جنوری ٢٠٢٣ تک ویب پر اسی طرح موجود ہیں جیسا کہ حوالہ دیا گیا ہے.

1.https://www.washingtonpost.com/archive/politics/2003/04/08/pakistans-modern-feudal-lords/45b45d57-d74a-4b73-8098-h%201bdc9490c255/
2.https://en.wikipedia.org/wiki/Abdul_Haq_(politician)
3.https://www.nation.com.pk/14-Jan-2023/ppp-mpa-four-others-acquitted-in-nazim-jokhio-murder-case

50% LikesVS
50% Dislikes

By admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *