ایک تھا جنگل اور ایک تھا جنگل کا شیر، اور بہت سے تھے اس جنگل میں جانور مگر یہ کہانی شروع ہوتی ہے شیر سے کہ ابھی اس کی کم سنی کا زمانہ تھا، کچھ نا تجربہ کار تھا اور کچھ شرمیلا بھی تھا، شکار کر تو لیتا مگر رو دھو کر مجبوری میں اور کوشش یہی ہوتی کہ شکار کے چکّر میں نہ پڑے ، اس کا دل جنگل کی سیاست اور اقتصادیات اور دیگر امور میں بہت لگتا تھا، چونکہ شیر اکیلا تھا لہٰذا اس کی زیادہ چلتی نہیں تھی، پھر یہ ہوا کہ اس نے اور جانوروں کو اپنے ساتھ ملانا شروع کیا جن کو طاقت حاصل کرنے کا بڑا شوق تھا مگر دماغ کے علاوہ کوئی خاص جسمانی صلاحیتیں نہیں تھیں، ان میں لومڑی، گیدڑ ، لگڑ بھگے وغرہ شامل تھے، شیر نے اپنا رونا رویا کہ اس کو جنگل کی بھلائی کے کام کرنے ہیں مگر زیادہ وقت شکار میں لگ جاتا ہے، طے یہ ہوا کہ سب جانور مل جل کر شکار گھیر کر لائیں گے تاکہ عالی جناب شیر صاحب بیٹھے بیٹھے شکار کر سکیں، بدلے میں سب کو شکار میں حصّہ ملے گا، ساتھ ہی ساتھ شیر کو جنگل کے قانون میں بنیادی اختیار دلوایا جائے گا. چلیں جناب اسی طرح ہوا اور پہلا شکار اس طرح سے ہوا، شیر صاھب حصّہ کرنے بیٹھے تو بولے پہلا حصّہ میرا کیونکہ میں شیر ہوں، دوسرا حصّہ میرا کیونکہ میں طاقتور ہوں، تیسرا حصّہ میرا کیونکہ میں نے شکار مارا اور چوتھا حصّہ سامنے رکھا ہے جس میں ہمّت ہو ہاتھ لگائے. ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جملہ مصاحبین یہیں سبق سیکھ لیتے مگر شیر میں اتنی عقل تو تھی، اس نے اپنے مختار کُل ہونے کا احساس دلانے کے بعد سب میں کچھ نہ کچھ بانٹ دیا، چلیں جی تو کچھ دنوں میں سب کو مزے کی عادت پڑ گئی، باتیں بنا کر شکار گھیرنا اور وہاں لانا جہاں شیر صاحب انتظار میں ہوں اور پھر شیر صاحب کی خوشنودی کے طفیل اپنا حصّہ پانا. سلسلہ چلا تو یہ روایت آگے بھی پھیلائی گئی اور وہ سب جانور جن کو جنگل میں کچھ حیثیت حاصل تھی اس حلقے میں شامل ہوتے چلے گئے یوں شیر کو جنگل میں اختیار بھی حاصل ہو گیا تا آنکہ شیر کی رضا جنگل کا قانون بن گئی.
پھر بھی جانور تو جانور ہیں، ان کی آزاد فطرت کو مکمّل طریقے سے تو دبایا نہیں جا سکتا، اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ان کو بنیادی جمہوریت سے نوازا گیا کہ وہ شیر کے چنے هوئے نمائندوں میں سے انتخاب کر کے شیر کی مصاحبت میں بھیج سکیں، اس کا کیا فایدہ تھا یہ تو کسی کی سمجھ میں نہ آیا مگر تسّلی ہو گئی کہ ابھی بھی آزادی حاصل ہے. اس کے علاوہ یہ کیا گیا کہ شیر ہر سہ ماہی جنگل کے دورے پر نکلتا اور یہاں وہاں دھاڑ دھاڑ کر جانوروں سے پوچھتا کہ بتاؤ جنگل کا بادشاہ کون ہے ؟ اس طرح جانوروں میں شیر کا خوف بیٹھا رہتا، ایک دفعہ ایسا ہوا کہ شیر کا سامنا ایک ہاتھی سے ہو گیا، ہاتھی تو آپ کو پتا ہی ہے کہ جمہوریت پسند جانور ہے اور غول بنا کر رہتا ہے جہاں عموماً سب ہاتھیوں کو ذرایع خردونوش پر یکساں حقوق حاصل ہوتے ہیں، سب مل کر محنت کرتے اور خوراک حاصل کرتے ہیں یعنی کہ خاصا اشتراکی انداز ہوتا ہے ہاتھیوں کا، سو جب شیر نے دھاڑ ماری تو ہاتھی نے آنجناب کو سونڈ میں لپیٹا اور دور اٹھا کر پھینک دیا، اس کو کیا غرض کہ کون بادشاہ کون رعایا، شیر کو جب ہوش آیا تو گرتا پڑتا ہانپتا کانپتا اٹھا، لڑکھڑاتا ہوا ہاتھی کے پاس آیا اور بولا ‘بھائی جان پتہ نہیں تھا تو پوچھ لیتے، میں ہوں آپ کا خادم ‘ . اس ہاتھی کا آگے کیا ہوا اس معاملے میں تاریخ خاموش ہے، مگر اتنا پتا ہے کہ ایک گڑھے سے ہاتھی دانت برآمد ہونے کی خبر آئی تھی، اب یہ سمجھنا تو مشکل نہیں کہ گڑھا کس نے کھدوایا ہوگا. یوں شیر نے ایک سبق اور سیکھ لیا کہ جو کسی اور کے لیے گڑھا کھدواتا ہے وہ خود اس میں نہیں گرتا.
یہ کہنا مشکل ہے کہ شیر نے میکیاولی کو پڑھا تھا کہ نہیں، مگر قیاس کہتا کہ ضرور پڑھا ہوگا کیونکہ شیر کے ابا جان خاصا بڑا ذخیرہ کتب کا چھوڑ گئے تھے. آگے بھی جانوروں میں حقوق اور آزادی کی تحریکیں پیدا ہوئیں، ان کا حل یہ نکالا گیا کہ ایسے جانور جو نعرہ لے کر اٹھتے شیر کے ہمدرد و نمک خوار وہی نعرہ لگانا شروع کر دیتے اور عام معصوم جانور پریشان ہو جاتے کہ کھائیں کدھر کی چوٹ بچائیں کدھر کی چوٹ، جیسے کوئی کہتا کہ روٹی کپڑا اور مکان تو سب یہی نعرہ مارنے لگتے کیا حزب اقتدار اور کیا حزب اختلاف، کیا دایاں بازو اور کیا بایاں بازو، تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے، اور اسی پریشانی میں معامله ٹھنڈا ہو جاتا.
رفتہ رفتہ شیر کو ایک آفاقی حیثیت حاصل ہو گئی اور جانوروں نے اس کی موجودگی, حیثیت اور اقتدار کو زندگی کاایک حصّہ اور تقدیر سمجھ لیا یہاں تک کہ شیر ان کی آپس کی سر پٹھول سے غائب ہو گیا، یعنی ان کے اختلافات بھی ایک دوسرے سے رہ گئے، ایک دوسرے کی ٹانگ گھسیٹتے اور اپنے تعیں انقلابی کہلاتے ، جالب نام کے شاعر کی تو بن آئی تھی، جس کو دیکھو اسی کا کلام پڑھ رہا ہے جھوم رہا ہے. شیر کے اس عالم میں مزے تھے، شکار کے لئے کوئی محنت نہیں کرنی تھی، جنگل اپنا تھا، جانور اپنے تھے، داخلہ اور خارجہ تمام امور پر غلبہ تھا، زمین اپنی، درخت اپنے. اب اگر کوئی نعرہ لگتا تھا کہ چوہا ساڈا شیر ہے، باقی ہیر پھیر ہے تو شیر سن کر زیر مونچھ مسکرا دیتا . والله عالم بالصواب.

50% LikesVS
50% Dislikes

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *