زمانہ گزرا، ہمارے ایک رشتے دار ہوتے تھے جن کو اچھے میاں بلایا جاتا تھا، اصل نام خدا جانے کیا تھا، ہم ان کو اچھے ماموں کہا کرتے تھے کہ ہم سے یہی کہا گیا تھا، وقت نے نہ جانے کتنوں کو کہاں سے کہاں پنہچا دیا کہ یادوں کے دھندلکوں میں چہرے بھی نہیں پہچانے جاتے، بس ایک خاکہ سا ہے کہ ذہن میں کہیں محفوظ ہے اور بس. ان وقتوں میں اچھے ماموں کا ہمارے ہاں بڑا آنا جانا تھا، ہم سے کوئی بیس پچیس برس بڑے ہونگے، تو جب ہم نے ان کو دیکھا تو اچھے خاصے جوان اور چلبلے تھے، ہمارے ان کی اس وقت کی عمر تک آتے آتے سارا چلبلہ پن سب شوخی سب شرارت زمانے کے دھکوں ، بے روزگاری، مہنگائی، خاندانی ذمّہ داریوں میں کہیں کھو چکی تھی، اور بچا تھا پریشانیوں کا انبار. ایک شخص کو کچھ سے کچھ ہوتے دیکھنا انتہائی تکلیف دہ ہو جاتا ہے، مگر دنیا اسی کا نام ہے.
تو اچھے ماموں نے ہم سے ایک دفع کھیر چوری کر وائی، جی ہاں ، ہم کو بھلا پھسلا کر ترغیب دی کہ باورچی خانے سے صبح کی بچی کھیر نکال لاؤ تو گیند لے کر دیں گے. ہم نے جناب بچی کھیر جس رکابی میں رکھی تھی، وہ لا کر اچھے ماموں کو تھما دی ، قسمت کہ کسی نے نہیں دیکھا، اچھے ماموں نے شوق فرما کر خالی رکابی دی کہ جاؤ رکھ آؤ اور ہم واپسی میں پکڑے گئے، پوچھ تاچھ پر سچ بول دیا، مگر اچھے ماموں صاف مکر گئے کہ ان کو تو کوئی خبر نہیں، نتیجہ یہ نکلا کہ دگنی پٹائی ہوئی. ہم یہ موٹے موٹے آنسو آنکھوں میں لئے اچھے ماموں کو دیکھتے رہے اور وہ انجان بنے بیٹھے رہے، کیا مجال کہ ذرّہ بھی پریشانی یا پشیمانی کا شائبہ بھی گزرا ہو ان کے چہرے سے. تو جناب ہم نے جب سے ان کا نام برے ماموں رکھ دیا. اب شروع ہوا اصل مسئلہ، لوگ باگ سب ناراض کہ یہ بچہ کیوں اس طرح بولتا ہے، ماں باپ سمجھا سمجھا کر تھک گئے، ساتھ کے بچوں سے لڑائیاں بھی ہوتیں رہیں مگر ہم اپنی پر قائم رہے کہ یہ حضرت اچھے نہیں بلکہ برے ماموں ہیں ، ماموں نے کچھ ایسا ہی ہاتھ ہمارے ایک اور ہم عمر رشتے دار کے ساتھ کیا اور ہم ایک سے دو ہو گئے، مگر نقارخانے میں دو ہو کر بھی ایک ہی طوطی رہے، بڑا مایوسی کا وقت تھا. پھر ایک دن ماموں نےخود ہی ہمارے گھر والوں کو اصل بات بتا دی، ہم کو بہت پیار ملا، دلار کیا گیا، سب کچھ ہوا مگر پھر بھی ماموں برے ماموں ہی رہے، انہوں نے جھوٹ جو بولا تھا، بھروسہ جو توڑا تھا، یہ بھی سوچئے کہ ماموں خود نہ بولتے تو آج بھی کوئی ہمارا یقین نہ کرتا. بہت عرصہ گزر گیا، ماموں کا انتقال ہو چکا، ہم کو ان سے کوئی گلہ بھی نہیں، مگر بچپن کے نقش بڑے انمٹ ہوتے ہیں، اس کھیر کو شاید ہی کبھی بھول سکیں، نہ ہی وہ تکرار اور بحث جو اچھے برے کے پھیر میں ہوتی رہی اور نہ ہو وہ مار جو کسی اور کی تفریح نے پڑوائی .
اعتماد اور بھروسے کا خون ہونے سے پہلے بھی بہت سے لوگ اس کا ادراک رکھتے ہیں کہ کہاں دھوکہ کھا سکتے ہیں کہاں نہیں، مگر ہم ایسے سادہ دل تب تک نہیں سیکھتے جب تک ہاتھ ہو نہ جائے . ہمارے پڑوس میں ایک صاحب کی چھوٹی سی دکان تھی، بہت چھوٹی سی، زیادہ تر بچوں کی سستی چیزیں یا تھوڑا نہت راشن، ریٹائر تھے اور گھر کا دال دلیہ چلاتے رہنے کے لیے دکان ڈال رکھی تھی. ان کے پاس علاقے کے محترم ذمّہ دار رہنما پپو لنگڑے نے اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا. جی ہاں ہم اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے جو بھی رہنما دیکھا لولا، لنگڑا، کانا، ٹنڈا، کالا، گورا، چھوٹا، موٹا، جن، بھوت اور اسی قبیل کے دیگر اعلیٰ القابات کو اپنے اسم گرامی کا حصّہ بنائے دیکھا، بہت زمانے تک سیدھے سادھے نام ہم کو متاثر ہی نہیں کرتے تھے، خود ہم نے خود کو سوکھا اور کالیا کہلوانے کی بڑی کوشش کی، بس بزرگوں کی جوتیوں، پڑھتے رہنے کی عادت اور مستقل بیمار رہنے کی بنا پر ایسا ہو نہ سکا، کون کہتا ہے کہ بیماری زحمت ہے، اگر ہم اتنا بیمار نہ رہتے تو آج ضرور بضرور علاقے کے معزز رہنما ہوتے. بہرحال تو یہ صاحب کہ چچا کہلاتے تھے پپو لنگڑے سے بڑے متاثر تھے، لوگوں نے بے حد سمجھایا کہ پپو بھائی یہاں وہاں ہر ایرے غیرے سے الجھتا پھرتا ہے، کرتا کیا ہے کسی کو نہیں پتا مگر جیبیں بھری رہتی ہیں، ٹی ٹی نیفے میں لگائے گھومتا ہے، اس سے بچو. مگر چچا کسی اور ہی خیال میں تھے کہ پپو بھائی کے آنے سے ان کی بھی شان میں اضافہ ہو جاتا ہے، غرض مند آ کر جب اپنی حاجتیں پپو بھائی سے بیان کرتے تو ساتھ میں چچا کو بھی خوشامد بھرے جملے سننے کو ملتے، یہاں وہاں آتے جاتے تو لوگ چچا کو بڑے احترام سے سلام کرتے، کبھی کبھی پپو بھائی نہ ملتے تو لوگ اپنی شکایات چچا ہی کے گوش گزار کر دیتے، لہٰذہ چچا کے پو بارہ تھے، پپو بھائی کی غنڈہ گردی کے قصّے وہ ایک کان سے سننتے دوسرے سے نکال دیتے. پھر ایک دن یوں ہوا کے چچا کی منجھلی بیٹی جس کی بات اپنے چچا زاد سے طے تھی پپو لنگڑے کے ساتھ بھاگ گئی اور دونوں نے کورٹ میرج کر لی، چچا بیچارے یہاں وہاں دوڑتے پھرے ، تھانے کے چکر بھی لگائے اور پپو بھائی کے بھائیوں سے بھی ملے (جن سے چچا کی بڑی اچھی سلام دعا ہو گئی تھی) مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا، بلکہ دو ایک دفع مار پڑی ساتھ دھمکیاں کہ بوڑھے ہو اس لئے چھوڑے دیتے ہیں مگر یاد رکھو اور بیٹیاں بھی ہیں گھر پے، ان کی تو شادی بھی نہیں ہو گی. مرتے دم تک چچا پپو لنگڑے کو گالیاں کوسنے دیتے رہے، بیٹی کو ایک ہی سال میں طلاق ہو گئی، پھر اس کا کیا ہوا کچھ پتہ نہ چلا. پپو لنگڑے نے بڑی ترّقی کی، کونسلر بنا، بزنس مین بنا،سماجی رہنما ہوا، اور اب پپو لنگڑا بھی نہیں کہلاتا، انتہائی معزز انسان ہے، چچا کے گزرنے کے بعد ان کے گھر والے محلّہ چھوڑ گئے . کہاں گئے؟ کسی کو نہیں پتا. جو خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا.
تو بات یہ ہے کہ اچھا اچھا ہوتا ہے اور برا برا، اچھا آوروں کو لئے برا ہو تو آپ کے لئے اچھا کیسے ہو سکتا ہے؟ برا آپ کے لئے برا ہو اور اوروں کے لئے اچھا یہ کیسے ممکن ہے؟ اگر کوئی قتل کرتا ہے اور آپ اس کو برا نہیں سمجھتے کہ یہ قاتل تو ہے پر ہمارا قاتل تو نہیں، آپ کو کیا پتا؟ اگر کسی کو جرم، تشدد، عدم برداشت، زیادتی، طاقت کے نا جائز استعمال کی عادت پڑ جاے تو پھر اس کو روکنا آسان نہیں، کہتے ہیں کہ شیر کے منہ کو انسان کا خون لگ جائے تو پھر وہ رہ نہیں پاتا اور انسانی خون ہی اس کی پیاس بجھا سکتا ہے، اگر آپ اپنے جیسے انسانوں کو اٹھا اٹھا کر شیر کے آگے پھینکنے لگیں تو یاد رکھئے کہ جس دن کوئی شکار نہ ملا اس دن آپ ہی کی باری ہے. آپ کے اچھے ماموں کسی اور کے برے ماموں ہوں مگر آپ کو اس پر کوئی تعرض نہ ہو تو جانئے کہ آپ کا برا وقت آیا ہی چاہتا ہے، ماموں نے ادھر سے فارغ ہو کر آپ ہی کی طرف آنا ہے.

 

نوٹ : یہ مضمون پہلے ایل یو بی پی پر چھپ چکا ہے.
https://lubpak.com/archives/249687

50% LikesVS
50% Dislikes

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *