Hyderabad Sindh MemoirsHyderabad Sindh

نوٹ : یہ خالد صغیر صاحب کی خود نوشت یادداشت پر مبنی تحریر کا پہلا حصّہ ہے . یہ یادداشتیں سلسلہ وار چھاپی جائیں گی،

بیراج کالونی حیدرآباد سندھ جہاں میری پیدا ئش ہوئی ، وہاں کا ایک واقعہ آج بھی میری یاد داشت میں اسی روز کی طرح سے روشن ہے ،ہمارے پڑو سمیں عبدالباقی صدیقی صاحب رہا کرتے تھے، ان کے گھر سے ان کے بڑے بیٹے عبدالماجد کا جنازہ برآ مدہوتا ہے لوگ کندھا دیتے ہوئے اسے قبرستان کی طرف لے جا رہے ہیں ،ہم لوگوں کے گھر کے پیچھے تین بڑے خوبصورت لان بنے ہو ئے تھے ،ابھی جنازے کے شرکاء نے ان لان کو پا ر نہیں کیا تھا کہ باقی صاحب کے گھر سے خاصی ضعیف خاتو ن سفید ساڑھی میں ملبو س اپنے بال نوچتی چیختی چلّاتی فریاد کرتی جنازہ کے تعاقب میں بھاگنا شرو عہوئی، لوگوں نے بڑی مشکل سے اس کو قابو کیا اور اس کو کسی طرح سے واپس گھر میں لائے، اس کے بعد ماجد کی تدفین ہوگئی، یہ خاتون جو جنازے کے پیچھے بھاگ رہی تھی ،یہ ما جدکی ماں نہیں تھی بلکہ یہ ماجد کی دیکھ بھال کرتی تھی ، ان کو ہم سب لوگ’ بوّا ‘کہہ کر پکارتے تھے۔ باقی صاحب کا خاندان الہ آباد ہندوستان کی اشرافیہ سےتعلق رکھتا تھا ،ا و ربوّا’ الہ آباد ‘میں ہی کسی زمانے میں بہت ہی کمعمری میں بیوہ ہو گئی تھی جس کے بعد سے یہ باقی صاحب کے خاندان کے ساتھ رہتی تھی، باقی صاحب کو بھی ‘بوّا’ نے بچپن میں کھلیا ا وران کی خاطرخدمت کی ، اس کے بعد باقی صاحب کی جب شاد یہو گئی تو ان کے ہاں پہلا بیٹا’ ماجد’ پیدا ہوا یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے، بوّا اس بچّے کی دیکھ بھال میں لگ گئی۔ جب پاکستان بن گیا ا و ر ہندوستان سے وہ مسلمان جو اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے تھے حکومت پاکستان کی درخواست پر جن چود ہ 14 لوگوں نے ہندوستان سے پاکستان کے لیے ہجرت کی ان میں میرے والد صاحب بھی شامل تھے ا ور باقی صاحب بھیاسی گرو پ میں تھے، جب بوّا کےعلم میں یہ بات آئی کہیہ خاندان جلد ہی ہندوستان چھوڑ کر پاکستان روا نہہو جائے گا تو وہ بہت پریشان رہنے لگی ،بوّا کی جان ایک طرح سے ماجد میں تھیا ور ماجدہی اس کا سب کچھ تھا، اس وقت تقریبا پانچ چھہ سال کا رہا ہوگا ۔تو بوّا کا سب سے بر ا حال تھا ،بوّا چھپ چھپ کر بہت روتی تھی ا ورکہتی تھی کہ بھیّا پاکستان نہ جاؤ، لیکن جب بوّا کو یقین ہوگیا کہ یہ واقعی جارہے ہیں تو ا س کا رو رو کربرا حال تھا ۔با قی صاحب بھی بوّا کی عزّت کرتے تھے ،کیونکہ باقی صاحب کو بھی بوّا نے اپنے ہاتھوں میں کھلیا تھا ،انہوں نے بوّ اسے کہا کہ ایسا کرو کہ تم بھی ہمارے ساتھ پاکستان چلو وہاں پر رہنا ، جب تمہارا دل بھر جائے گایا جب تم کہو گی واپس ہندوستان بھجو ا دیں گے، اس بات سے بوّاکو اطمینان ہوا ا ور پھرجب باقی صاحب پاکستان آئے تو بّوا ان لوگوں کے گھر کے فرد کے طور پر ہجرت کر کے پاکستان آ گئی ۔بیراج کالونی میں بوّا انہی لوگوں کے ساتھ رہتی تھی ا وربہت خوش رہتی تھی ماجد اس کی آنکھ کا تارا تھا، ما جداسکو ل جانے لگا ، حیدرآباد میں کنٹونمنٹ ہائی اسکول میں اس کا داخلہ ہوا تھا مجھے جہاں تک یاد آرہا ہے جس وقت ماجد پانچویں کلاس میں تھا تو ایک دن وہ اسکول سے گھر آیا،اس کو سر میں درد شرو عہوا ا ور بخار بھی بہت تیز تھا ، ایک ہفتہ سے کموقت میں ہر طرح کے علا ج کے باوجود حالانکہ یہ ذہن میں رہے کہ اس زمانے میں حیدرآباد میں صرف دو یا تین ‘ایم بی بی ایس’ ڈاکٹر ہوتے تھے ، ماجد اس بیمار ی سے بچ نہ سکا، ممکنہ طورپر اسے گردن توڑبخار ہوا تھا جسمیں ماجد انتقال کر گیا ، ماجد کے انتقال کے بعدبوّا پر جیسے سکتہ طار یہو گیا وہ خلاؤں میں گھورتی رہتی تھی، ماجد کی خاطر بوّا نے نہ صرف اپنا وطن ہندوستان چھوڑا تھا بلکہ پاکستان آنے کے لیے اس نے اسلام بھی قبول کرلیا تھا اب اس کے پاس پاکستان میں رہنے کےلیے یا اس دنیا میں رہنے کےلیے کوئیخاص تحریک یا کو ئی سبب باقی نہیں بچا تھا، کچھ عرصے کے بعداس نے باقی صاحب سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ بیٹا ہم کو ہندوستان واپس بھجوا د وا و رباقی ں
صاحب نے یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ اس کو ہندوستان نہیں بجھوا ئی گے، لیکن ہر بار یہ ہوا باقی صاحب نے بوّا سے کہا ہم تمہیں بجھوا تو دیں گے لیکن تمہاری ضعیفی ہے ا ور تمکمزور بھی ہو تم اکیلے سفر نہیں کر سکتیں ، ہاں ہندوستان جانے والا کوئی مل گیا تو ہم تمہیں ا س کے ساتھ ہندوستان روانہ کردیں گے، اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ہم کھیلنے کے لئے پڑو سمیں ماجد مرحوم کے چھوٹے بھائی عبدالقادر کے پاس چلے جاتے تھے ،جس وقت ہم ان کے گھر کھیلنے کے لیے جا تےتو بوّا باقی صاحب کی بیگم کی آنکھ بچا کر چپ چاپ سے ہمارے پا س آتی ا ور کہتیکہ بھیّا ہم کو ہندوستان بھجوا د و،ہم کوہندوستان بھیج د و،اس بات کا ذکرہم اپنی والدہ سے کر تے کہ بوّا بہت پریشان ہے،جب ہم جاتے ہیں وہ یہی کہتی ہیںکہ ہمیں ہندوستان بھجوادو، ہماری والدہ نے اس کاتذکرہ ہمارے والد صاحب سے کیا کہ آ پ باقی صاحب سے بات کیجئے کہ وہ بوّا کو ہندوستان واپس بھجوا دیں،والد صاحب نے باقی صاحب سے اس حوالے سے بات کی تو ان کا یہی کہنا تھا کہ بوّا تنہا سفر نہیں کر پائیں گی، جہاں ان کو ہندوستان جانے والا کوئی نظر آیا تو ہندوستان اس کے ساتھ بھجوا دیںگے ، لیکن ایسا نہیں ہوسکا ،بوّا کی صحت تیزی سے گرتی جا رہی تھی اس نے کھانا پینا بھی تقر ئ بیُا چھوڑ رکھا تھا رفتہ رفتہ اس کی یہ حالت ہو گئی کہ وہ پلنگ سے لگ گئی پھر وہ وقت بھی آگیا کہ اس کا پیشاب پاخا نہ بھی پلنگ پر ہونے لگا ،اس کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی ،روزانہ صبح کے وقت جب مہترانی کام کرنے کےلیے آتی تو اس کے بد نسے غلاضت دورکرنے کے لئے باقی صاحب کی بیگم دور سے کھڑ ے ہو کر اس پر پانی پھینکتی تھیں ا ور مہترانی جھاڑو سے اس کے بدن کی غلاظت دور کر تی تھی،اس کے بعد اگر بوّا شام تک پھر غلا ضت میں ہوتی تو شام کے وقت یہی عمل دوبارہ ہوتا تھا، رفتہ رفتہ بوّا کا بو لن کم سے کم ہوگیا، کبھی ہمیں اشارے سے بُلاتی تھی ہم جاتے تو کہتی تھی، بیٹا ہم کو ہندوستان کب بجھوا ؤ گے، بڑے افسوس کی بات ہے کہ باقی صاحب جو بوّا کی بزر گی کا بھی احترام کرتے تھے، انہو ں نے بّوا کو ہندوستان بھجوانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، سردیوں کے موسم میں جب بّوا کےٹھٹھرے ہوئےگندے جسم پریخ ٹھنڈا پانی پھینکا جاتاتھا تو اس کی چیخیں نکل جاتی تھیں، ایک رات کو بوّا ایسا سو ئی کہ پھر اٹھ نہ سکی ،ا ور اس کی روح ہندوستان چلی گئی ا و راس کے جسد خاکی کو قبرستان لے جاکر بحیثیت مسلمان دفن کردیا گیا ، میری والدہ کا ہمیشہ یہ کہنا تھا کہ ان لوگوں نے بوّا کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے ،روح نے عشق کا فریب دیا۔جسم کو جسم کی عدا وت میں.
آج بھی بّوا کا چہرہ اکثر میری نظروں میں آجاتا ہے ،بہت خوبصورت گورالال چٹّا رنگ سفید ساری یا ساڑھی،آخری عمرمیں تو ا س کے بال بھیساری کے ر نگسے مل گئے تھےمکمل سفید نظر آتی تھی ، جس حالت میں وہ دنیا سے رخصت ہوئی ا ورجس طرح وہ خلاؤں میں تکتی رہتی تھی ،تو اس پر مجھے جون ایلیا کا ایک شعر یاد آ رہا ہے جسمیں تھوڑی تبدیلی کر دی ہے، کہ ‘ یوں جو تکتی ہے آسمان کو تو ۔کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا ‘ بوّا کو انتقال کیئے قریب سا ٹھ 60 برس سے زیادہ ہو رہے ہیں، اور آج تک یہ معمہّ اپنے ذ ہن میں حل نہیں کر پایا کہ جس وقت بوّا اپنے ہاتھ پیر سے چلنے کے لائق تھی ا ور میرے نزدیک اس کو ہندوستان بھجوانے میں کوئی ا یسی مجبوری نہیں تھی ،باقی صاحب خود اپنے طور پر یہ کرسکتے تھے کہ اس کو اپنے ساتھ لے جاتے ا ور سرحد تک پہنچا کر واپس آجا تے. یقیناً الہہ آباد میں کوئی نہ کوئی ایسا ہوتا جو سرحد سے اس کو آگے لے جاتا اور اس کی اس خواہش کو پوراکر دیتا ،لیکن وہ ہو نہ سکا اور صرف اس کی روح ہندوستان واپس چلی گئی.

50% LikesVS
50% Dislikes

By admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *