قادر نے ہم لوگوں کے ساتھ اسکول جانا شروع کردیا تھا، جب وہ ساتویں یا آٹھویں کلاس میں تھا تو اس کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہو گیا ، بھنے ہوئے چنے۔کھٹ مٹھی گولیاں اور ایسی دوسری چیزیں اس نے گھر میں بیچنا شروع کردیں ،محلے کے بچّے اس سے یہ چیزیں خریدنے کے لئے آنے لگے ہم لوگ بھی کبھی چنے یا کھٹّی میٹھی گولیاں لے لیتے تھے، اس زمانے میں گور نمنٹ کی ایک بس کالونی آ یا کرتی تھی ،جو براستہ ہیرآباد سو سائٹی تک جاتی تھی ،قادر نے اس کے کنڈکٹرسے دوستی بنالی اس معاملے میں وہ خاصا سوشل تھا، بس کے گیٹ پر کھڑے ہوکر کنڈکٹر کی طرح آوا زیں لگاتا تھا،جب ہم قادر کو بلاٹکٹ بس میں چڈّّی کھاتے دیکھتےتو کہتے کہ یہ کتنا خوش نصیب ہے مفت میں مزے لے رہا ہے ، قادر نے بہت ہی مشکل سے کم گریڈ میں اپنا میٹرک کا امتحان پاس کیا ا ور رائج دستور کے مطابق ان کے والد نےاس کوجس سرکاری دفتر میں وہ کام کرتے تھے وہیں پر اس کو ملازمت پر رکھوادیا ،باقی صاحب الہ آبا د یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے جس کا معیاربہت اچھا ہوا کرتا تھا،ان کے بڑے بھائی بھی پاکستان آگئے تھے ا ور ‘ٹی اینڈ ٹی’یعنی ٹیلیفون اینڈ ٹیلیگرا ف کے محکمہ میں ڈائریکٹر جنرل تھے ،ایک دفعہ باقی صاحب سے ملنے چند دنوں کے لئے بیراج کالونی آئے تو ان کے پہنچنے سے پہلے ہی ٹیلی فون کی تار بہت دور سے لائی گئی ا ور ان کے گھراس وقت تک کے لیے ٹیلی فون مہیا کردیا گیا جب تک کہ ان کے بڑے بھائی ان کے ساتھ چھٹیاں گزار رہے ہیں،اس زما نےمیں ٹیلی فون ایک انوکھی چیز تھی، جب ہم پڑوس میں جاتےتو قادر بتاتا کہ کیسے ڈائل کرتے ہیں،کالے رنگ کا سیٹ ہوتا تھا جس کی گول سو راخ والی پلیٹ میںایک انگلی ڈال کر نمبر ملاتے تھے ،قادر دفتر میں کام کرنے لگا تھا ا ور اس نے اپنے گھر میں مرغیاں بھی پال لی تھیں ، انڈ ے بھی بیچتا تھا، ایک دفعہ اس کی مرغیاں باہر چگ ر ہی تھیں کہ ایک آوارہ کتا مرغی پر جھپٹ پڑا ، قادر کو غصہ آیا کتے کے پیچھے دوڑا لیکن وہ بھاگ گیا ، بہرحال اس نے کتے سے بدلہ لینے کی ترکیب سوچی، وہ ہر روز کتے کو چمکار کے بلاتا ا ور اس کو کھانے کے لیے روٹی دیا کرتا تھا ،کتا بھی تھوڑامانوس ہو گیا ،تین چار روز کی محنت کے بعد ایک دن کتّے کو روٹی دینے کے لیے بلایا ا ور اپنی کمر کے پیچھے موٹا ڈنڈا لے کرکھڑا ہو گیا ، کتا قریب آیا اس نے کتے کو روٹی ڈالی جیسے ہی کتّا روٹی کھانے لگا قادر نےزوردار ڈنڈا مارا اورکتا بیچارہ لوٹ پوٹ ہو گیا ،ا ور قادر نے اس سے یوں بدلہ لے لیا. قادر نے ایک دن مجھ سے کہا کہ میں مارکیٹ کوئلہ لینے جارہا ہوں تم ساتھ چلوگے،گدھا گاڑی میں واپس آئیں گے، اس زمانے میںکوئی بھی سواری ہو بہت پر کشش ہوتی تھی.قادرنے ببول کی لکڑی کے کوئلہ کی بوری خرید لی ، لیکن کوئی گدھا گاڑی والابیراج کا لونی جانے کے لئے تیار نہیں تھا، وجہہ یہ تھی کے راستے میں سڑک کی ڈھلان بہت زیادہ تھی ا ور اس پر گدھا گاڑی ہو یا گھوڑاگاڑی ، جانور اپنا توازن برقرا ر نہیں رکھ پا تا تھا اور گر جاتا تھا، اس لیے وہ لوگ اس پر مشکل سے تیار ہوتے تھے ،میں نے قادر سے کہا کہ بہت دیر ہو رہی ہے میں تو گھر جاتا ہوں. اسی دکان پر ایک پڑھا لکھا مزدور بھی بیٹھا ہوا تھا ، آپ اندا زہ لگائیں کے اس زمانے میں اچھے خاصے سمجھدا ر ا ور شائستہ گفتگو کرنے والے لوگو ں کے لئے بھی روزگار کے ذرائع بہت کم تھے ،وہ محنت مزدوری کرتے تھے،اس نے پوچھا آپ کو بوری کہاں لے جانا ہے ،میں کندھے پر بوری رکھ کر لے جاؤں گا جتنے پیسے گدھا گاڑی والا لیتاہے اتنے پیسے مجھے دے دینا، قادرنے کہا نہیں ہم گدھا گاڑ ی پرہی جائیں گےکیونکہ ہم خود بھی اس پر بیٹھ کر جائیں گے، وہ ستم ظر یف ہنسا کہنے لگا ایساکر و پیسےاتنے ہی دینا، میرے کندھے پر بوری رکھ کراس کے ا وپر آپ بیٹھ جاؤ، میں دونوں کو پہنچادوں گا، میری ہنسی چھوٹ گئی قادر نے غصہ میں اس کو برا بھلا کہا، میں گدھا گاڑی سوار ی کی حسرت لئے گھر واپس آگیا، دوسرے دن میں نے اسکول جاتے ہوئے دیکھا تو مجھے ان کے گھر کے صحن میں کوئلےکی بوری رکھی نظرآئی ،
قادر سے چھوٹی اس کی بہن شاہدہ تھی ا ور اس سے چھوٹے دو بھائی عبدالواحد اور عبدالحامد تھے، قادر کی بہن نے اپنی تعلیم جس حد تک وہ مکمل کر پائیں ،اس کےبعد اس نے بیراج کالونی میں قائم لڑکیوں کے سرکاری اسکول میں پڑھانا شروع کر دیا تھا، بدقسمتی سے خوبصورت ہونے کے باوجود اس کی شادی نہیں ہو پائی، اس کی وجہ یہ تھی کہ باقی صاحب کی بیگم کے ذہن میں یہ خیال تھا کہ ان کی ‘صدّیقی’ نسل خراب نہیں ہونی چاہیے، یہ خنّاس ہندوستان سے آنے والی اشرافیہ کے اکثر خاندانوں کے دماغ میں رہا جس نے ان کو کہیں کا نہ چھوڑا ،وہ چاہتی تھیں کہ لڑکا بھی صدیقی خاندان کا ہو ا ور ہّّڈی میں پیوند نہ لگے ا ور اس کے علاوہ اس کی کوئی اچھی ملازمت یاروزگار کا معقول ذریع بھی ہو ، چو نکہ ملنا جلنا کسی سے نہیں تھا اور ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تھے ،اس حوالے کسی کو پتہ بھی نہیں تھا کہ ان کے ہاں ایک جوان لڑکی موجود ہے اچھی شکل و صورت کی اور تعلیم یافتہ ،میری والدہ نے ‘بیگم باقی’کو کئی دفعہ سمجھا یا کہ جو بھی رشتے آرہے ہیں ان میں کوئی مناسب رشتہ دیکھ کر شادیکر دیجئے، ہمیشہ یہی کہتی تھیں کہ نہیں میں ہڈی میں جوڑ نہیں لگنے دوں گی، ہڈی میںجوڑ تو نہیں لگا اس حد تک تو وہ کامیاب رہیں ، لیکن بیٹی کی شادی نہیں ہو پائی، شاہدہ اپنی ملازمت بیراج کالو نی کے اسکول سے پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو گئی. ابھی تک اسی ‘9-A’ مکان میں یہ لوگ رہتے ہیں، باقی صاحب انتقال کر چکےہیں ان کی بیگم بھی انتقال کر گئی ہیں، بچوں میں قادرشادی شدہ تھا ، بہن اور اس سے چھوٹے دو نوں بھائی عبدالواحد عبدالحامد بھی وہیں رہتے ہیں ، بڑے بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دونوں بھائیوں نے سرکاری دفتر میں بحیثیت کلرک ملازمت کر لی.
بیراج کالونی میں بہت کم لوگ ایسےتھے جو کالونی کے ماحول سے باہر نکلے، حالانکہ کالونی میں رہنے والا طبقہ درمیانہ پڑھا لکھا تھا اور کالونی کا اپنا سماجی ماحول بہت اچھاتھا ،کالونی میں جو تین لان بنے ہوئےتھے ان میں سے بیچ والے لان میں ہم لوگ ہاکی کھیلا کرتے تھے ، لیکن قادر اور اس کے کسی بھائی نے کسی بھی طرح کرکٹ یا ہاکی کے کھیل میں کوئی دلچسپی نہیں لی، باقی صاحب کے بیٹوں میں بڑے بیٹے عبدالقادرکے ہاں ایک بیٹی ہوئی ا و ر باقی بیٹوں کے ہاں کوئی ا ولاد نہیں ہوئی ،یوں الہہ آبا د کےاس اشرافیہ خاندان کی کہانی بیراج کالونی حیدرآباد میں ہی اختتام پذیر ہوگئی. میری والدہ کی یہ بات اکثر یاد آتی ہے کہ بیٹا اس خاندان کو بوّا کی آہ لگی ہے کیونکہ یہ تینوں بھائی اپنی عملی زندگی میں کامیاب نہیں ر ہے ، قادر کی شادی دیر سے ہوئی تھی، مجھے پتا چلا کہ چھہ سات سال پہلے قادر لاہور منتقل ہو گیا تھا اور وہ حیدرآباد کسی سلسلے میں اپنے گھر ملنے آیا ا ور واپس جب لاہور گیا تو اس کو’ کرونا’ Covid 19 لاحق ہوگیا تھا جس میں وہ دنیا سے گزر گیا ،ابھی تک وہ مکان’ا ے۔نائن’ باقی صاحب کے بچوں کے زیر استعمال ہے ، کئی دفعہ سرکاری سطح پر کوشش ہوئی کہ ان کو اس گھر سے نکالا جائے لیڈی پولیس کو لانا پڑا لیکن کامیابی نہیں ہو پائی.

50% LikesVS
50% Dislikes

By admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *